وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا ہے کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ 900 کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا ہے۔ وزیر خارجہ نے یہ انکشاف اوماڑہ میں دو روز قبل بسوں سے اتار مسافروں کو شہید کرنے کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایران میں قائم دہشت گردوں کے کیمپوں سے حملہ آوروں نے بلوچستان کے علاقے میں آکر 14 مسافروں کو ہلاک کیا تھا ۔ ان میں پاک نیوی کے دس جوان بھی شامل تھے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا مقصد ان دہشت گردوں سے پاکستانی شہریوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
ایران کے ساتھ سرحد کی حصار بندی سے پہلے پاک فوج افغانستان کے ساتھ اڑھائی ہزار طویل ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا کام مکمل کررہی ہے ۔ پندرہ برس قبل بھارت کشمیر میں واقع لائن آف کنٹرول پر 700 کلومیٹر طویل باڑ یا دیوار تعمیر کرچکا ہے تاکہ اس کے بقول پاکستانی کے زیر انتظام کشمیر سے ’دہشت گرد‘ حملے کرنے کے لئے بھارتی زیر انتظام یا عرف عام میں مقبوضہ کشمیر میں تخریب کاری کے لئے داخل نہ ہوسکیں۔ یعنی جو الزام شاہ محمود قریشی ایران پر عائد کرتے ہوئے تہران سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں بلوچ دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں اور تربیتی مراکز کو ختم کرے ، وہی تقاضہ لگ بھگ دو دہائی سے بھارت ، پاکستان سے کرتا رہا ہے۔ نہ مقبوضہ کشمیر میں مکمل امن بحال ہو سکا ہے اور نہ ہی بھارت نے پاکستان پر اس کے علاقے میں تخریب کا ری کا الزام لگانا بند کیا ہے۔
اس سلسلہ میں تازہ ترین واقعہ فروری میں پلوامہ میں ہؤا جہاں ایک کشمیر ی نوجوان نے خود کش حملہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے چالیس جوانوں کو ہلاک کردیاتھا۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا کیوں کہ اس کے بقول جیش محمد نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کیا لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہؤا کہ جیش محمد کا سربراہ مولانا مسعود اظہر پاکستان میں ہی ہے اور پاکستان اپنے حلیف چین کے توسط سے مسلسل اس کا نام اقوام متحدہ کے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے سے رکوانے کا خواہش مند رہتا ہے۔
اسی طرح خوں ریزی اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ پلوامہ سانحہ تو اس حوالے سے المناک سبق کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے بعد بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کرنے کی کوشش کی اورپاکستان کو بدستور اندیشہ ہے کہ بھارت اس حملہ میں ناکامی کے باوجود پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
بھارت کی طرف سے سرحدوں پر پیدا کئے گئے ہیجان کی وجہ سے دونوں ملکوں کی افواج سرحدوں پر مستعد ہیں۔ بھارتی افواج کسی بھی کمزور لمحہ میں پاکستان پر لپکنے کے لئے تیار ہیں اور پاکستانی افواج اس قسم کی کسی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے چوکس ہیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو للکارنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے لیکن اس صورت حال نے پاکستان کی مسائل میں گھری معیشت کو مزید دباؤ کا شکار کیا ہے۔ خطے میں جنگ کے خطرہ کی وجہ سے نیا سرمایہ کار ادھر کا رخ کرنے سے کترانے لگا ہے اور فوج متعین رکھنے پر اٹھنے والے مصارف کو برداشت کرنے کی وجہ سے بجٹ خسارہ میں اضافہ ہوگا اور ترقیاتی شعبہ میں وسائل کی فراہمی متاثر ہوگی۔ اس طرح حکومت کوبے روزگاری میں کمی اور معاشی احیا کا مقصد حاصل ہونے میں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا رہاہے۔ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ اسد عمر کو دو روز پہلے اپنی وزارت چھوڑنا پڑی اور وزیر اعظم نے خزانہ کے علاوہ متعدد دیگر وزیروں کو تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ صرف ان لوگوں کو کابینہ میں رکھیں گے جو پاکستان کو کامیاب کروانے کا مقصد پورا کرسکیں۔
ایک طرف ملک کو حصار بند کرنے کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے تو دوسری طرف ان عوامل میں اضافہ ہورہا ہے جن کی وجہ سے حکومتیں ہی نہیں ملک کمزور ہوتے ہیں اور انہیں لاحق خطرات میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان اور ایران سے ہونے والی دہشت گردی سے بچاؤ کے لئے باڑ لگانے کا راستہ چنا ہے لیکن لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے باڑ لگانے کو وہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے شکایت کرچکا ہے۔ اس شکایت کی ایک وجہ یہ ضرور ہو سکتی ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کررکھا ہے اور کسی بھی ملک کو یہ تنازعہ حل کئے بغیر علاقے کی صورت حال اور لائن آف کنٹرول کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کا حق نہیں دیاجاسکتا۔
بھارت نے اسرائیل کی طرح کشمیر میں دیوار تعمیر کرکے حملوں کی روک تھام کی کوشش کی تھی۔ اور دونوں ملک مسلسل اس کی ناکامی کا یوں اعتراف کرتے رہتے ہیں کہ سرحد وں کو حصاربند کرنے کے بعد بھی وہ حملوں سے محفوظ نہیں ہوئے۔ اس لئے سوال ہے کہ کیا پاکستان، افغانستان کے بعد ایران کے ساتھ سرحد پر باڑ لگالینے کے بعد محفوظ ہوجائے گا۔
دیواریں بنا کر حفاظت کرنے کا دعویٰ کرنے والے ملک دراصل اپنے اندر موجود انتشار اور سیاسی عدم استحکام سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان بھی افغانستان کے بعد ایران کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر روک لگا کر جس دہشت گردی سے نمٹنا چاہتا ہے، اس کے عوامل اور وجوہ سمجھنے کے لئے اسے اپنی حکمت عملی، نظام حکومت، طریقہ کار ، سیاسی فیصلوں ، معاشی ترجیحات اور آئینی و قانونی انتظامات پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ سارے معاملات اہم اور پیچیدہ ہیں۔ کمزور حکومتیں جب انہیں حل کرنے کی ہمت نہیں پاتیں تو ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جاتا ہے جن سے اپنے عوام کے عدم تحفظ کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ لیکن سلامتی کا احساس ڈھکوسلوں یا نعروں سے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لئے اپنے نظم اور طریقہ کی شیرازہ بندی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان مسلسل اس مقصد میں ناکام ہورہا ہے۔
پاکستان کی مختصر تاریخ خراب حکمرانی اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کے علاوہ دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے مسائل اور ضرورتوں کو نظر انداز کرنے کی المناک کہانی ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ان ناکامیوں سے سبق سیکھنے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ کہنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ کابینہ میں تبدیلیوں کے ذریعے حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔ یا یہ کہ جانے والے یا اپنے گزشتہ محکموں میں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والے وزیر مسئلہ کی جڑ تھے اور ایک اچھے کپتان کے طور پر عمران خان نے بروقت اس مسئلہ کا تدارک کرکے ترقی کی شاہراہ پر پاکستان کے سفر کو ہموار کردیا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ اختیار اور صلاحیت کے دعوؤں کا یہ فریب اب اس ملک کا عام آدمی بھی کھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ طریقہ بار بار آزمایا جاچکا ہے اور ہر بار ناکام ہؤا ہے۔
فوج نے چار بار براہ راست حکومت کر کے اس ملک کو ’صراط مستقیم‘ پر رکھنے کی کوشش کرکے بھی دیکھ لیا ہے۔ اگر یہ طریقہ ہر بار کے تجربہ کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکا تو بالواسطہ امور مملکت چلانے کی کوشش کرنے کا حربہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ جنرل ضیا کی رخصتی کے بعد سے اس ملک کے معاملات فوجی قیادت نے ہی چلائے ہیں۔اس دوران پرویز مشرف کے براہ راست حکمرانی کے 9 سالہ دور حکومت کو اگر نکال کر بھی دیا جائے تو باقی ماندہ 31 برسوں میں کسی بھی منتخب حکومت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بلاشبہ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہر حکومت کسی نہ کسی طرح فوج کے ساتھ ’مفاہمت‘ کے نتیجہ میں ہی برسر اقتدار آتی رہی ہے۔ اس لئے خود چنی ہوئی قیادت سے ’ڈیلور‘ ہونے کی زیادہ توقع بھی وابستہ کی جاتی ہے۔ 2008 اور 2013 میں بالترتیب منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو میمو گیٹ اور ڈان لیکس کے ذریعے زچ کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ اگر نواز شریف میمو گیٹ میں مدعی بنے تو ڈان لیکس کے منصوبہ کو حتمی شکل دینے میں آصف زرداری نے اپنی خدمات پیش کیں۔ اب دونوں اپنے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔
ملک کی دو اہم ور دو بڑے صوبوں میں مقبول پارٹیوں سے ’مایوسی‘ کے بعد تحریک انصاف کے ’نئے پاکستان ‘ کو موقع دینے کا عزم کیا گیا لیکن کابینہ میں ردوبدل کا اقدام اس پارٹی سے مقتدرہ کی مایوسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس صورت حال میں عمران خان یا تحریک انصاف کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے یہ سمجھنا ہو گا کہ جمہوری عمل کے نام پر غیر جمہوری طریقوں کو آزمانے کا طریقہ ناکام ہؤا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کا منشور یا حکمت عملی نہیں بلکہ ایک بار پھر ریاسدتی اداروں کا سیاسی ایجنڈا اور طریقہ کار ناکام ہورہا ہے۔ سیاسی لیڈروں کو الزام دینے اور ان کے بازو مروڑنے کی بجائے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دباؤ ڈال کر مرضی مسلط کرنے کا طریقہ کبھی ملکی معیشت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دے گا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ فسطائیت پر مبنی سات دہائیوں کے ناکام تجربات کے بعد ایک بار جمہوری قوتوں کو ان کا جائز اختیار دے کر دیکھ لیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ انگلی پکڑ کر چلنے کے عادی لیڈر ’خود مختاری‘ میں بہت سی غلطیاں کریں۔ لیکن پرانی غلطیاں دہرانے سے بہتر ہے کہ نیا طریقہ آزما لیا جائے۔ پرانے طریقوں نے حصار بند ملک اور پا بہ زنجیر حکومتوں کے علاوہ اس ملک کو آخر کیا دیا ہے؟
ٌ(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ