یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال میں ، اس بات کا پتہ بھی نہیں چلا کہ کب تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال بیت گیا۔ حکومت نے بھی اس موقع پر کسی خاص دھوم دھڑکے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسلام آباد میں ایک تقریب ضرور منعقد ہوئی جس میں اطلاعات کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے آزادی رائے اور میڈیا کی خود مختاری کو حکومت کی بنیادی ترجیحات کا حصہ بتا کر سامعین کو محظوظ ضرور کیا۔ اس کے علاوہ نہ ان کے پاس کچھ کہنے کو تھا اور نہ ہی ایک سالہ دور حکومت کی کارکردگی کا کوئی خاص حساب پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے ایک ہی روز بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تین برس کی توسیع کے اچانک اعلان سے یہ ضرور واضح کردیا کہ اس ایک برس میں ان کی حکومت کی سب اہم کارکردگی کیا ہے۔ بطور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع سے ، عمران خان نے اپنے سیاسی دشمنوں کو یہ بتایا ہے کہ فی الحال ان کی دال گلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بظاہر یہ توسیع مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بارے میں بھارتی حکومت کے فیصلے اور دو ہفتے سے زائدمدت سے مقبوضہ وادی میں عائد انسانیت سوز پابندیوں کی وجہ سے دی گئی ہے۔ حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ میں اضافہ کی وجہ سے سرحدوں کی صورت حال پریشان کن ہے۔ حکومت کے علاوہ فوج کے ترجمان بھی متعدد مواقع پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ کسی وقت بھی بھارتی فوج حملہ آور ہوسکتی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ ان حالات میں آرمی چیف کی تبدیلی ملک کی قومی سلامتی کے لئے مناسب نہیں ہوگی۔
جہاں تک سرحدوں پر کشیدگی کا تعلق ہے اور بھارت کی طرف سے کسی ناگہانی جارحیت کے امکان کی بات ہے تو اس کے تمام اشارے پاکستانی قیادت کی طرف سے تو موصول ہوئے ہیں لیکن بھارتی لیڈروں نے پاکستان پر الزام لگانے اور یا حملہ کی دھمکی دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر اس دوران بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے بھی چپ سادھے رکھی ہے ۔ حالانکہ وہ وقتاً فوقتاً مودی سرکار کی سیاسی حمایت کے لئے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائک کرنے اور سبق سکھادینے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح اس سال کے شروع میں بھارتی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کے بارے میں اختیار کیا گیا جارحانہ رویہ بھی ترک کیا ہؤا ہے۔ حتی ٰ کہ 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ پر منعقد ہونے والی تقریب میں بھی نریندر مودی نے پاکستان کا ذکر کرنے یا کسی قسم کی دھمکی دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یعنی بھارت سے موصول ہونے والے اشارے اس تاثر سے برعکس ہیں جو عمران خان اور ان کی حکومت کی طرف سے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کشمیر کی صورت حال بدستور غیریقینی ہے۔ ابھی تو وہاں مواصلات اور نقل و حرکت پر پابندیاں بھی عائد ہیں ۔ تاہم یہ پابندیاں ختم ہونے کے فوری بعد بھی امن و مان کی ایسی کوئی صورت حال پیدا ہونے کا امکان نہیں کہ بھارت کو عالمی تنقید سے بچنے کے لئے پاکستان پر حملہ کرکے وہاں سے توجہ ہٹانے کی ضرورت محسوس ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کشمیری عوام میں نئی دہلی کے فیصلہ پر شدید ناراضگی اور بے چینی پائی جاتی ہے تاہم اس غم و غصہ کو منظم ہونے اور اس کے اظہار میں ابھی شاید کافی وقت درکار ہوگا۔ کشمیری لیڈر زیر حراست ہیں اور بی جے پی کی حکومت مقبوضہ علاقے میں گرفت سخت رکھنے کی کوشش کرے گی۔ کئی ماہ کی منصوبہ بندی اور کئی ہفتوں کی تیاری کے بعد کشمیر میں بھارتی سیکورٹی کے قائم کئے گئے حصار کو کمزور پڑتے اور کشمیریوں کی ناراضگی کو سامنے آنے میں بھی کچھ مدت درکار ہوگی۔ عملی طور سے بھارتی حکومت کی پوری توجہ وادی میں اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے پر مبذول ہوگی ۔ ان حالات میں وہ پاکستان پر حملہ کرکے کشمیر کے معاملہ پر ایک نئی عالمی بحث شروع کرنے کی حماقت سے گریز کرے گی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کرکے یہی یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک کسی قسم کی مہم جوئی سے گریز کریں۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے جاری ہونے والے ٹوئٹ پیغام میں واضح کیا گیا ہے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے بات کرتے ہوئے علاقے کے بعض لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پر تشویش کا اظہار کیا۔ یعنی مودی نے ٹرمپ کو یہ بتایا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان اور پاکستانی قیادت بھارت کے خلاف جنگجویانہ بیانات سے گریز کرے تو اس سے کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ٹرمپ نے مودی کے بعد عمران خان سے بات کرتے ہوئے یہی بات ان تک بھی پہنچائی ہوگی۔ افغانستان میں کسی ممکنہ امن معاہدہ کی امید لگائے بیٹھے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات کی خبر ہوگی کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے تو افغان امن معاہدہ اس کا پہلا نشانہ ہوگا۔ ٹرمپ فی الوقت یہ بھاری قیمت ادا کرنے کے لئے تیا رنہیں ہوسکتے۔
ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ہی برصغیر میں امریکی صدر کے دوسرے بہترین دوست عمران خان کی حکومت نے کشمیر کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے ملک کے مستعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نصف صدی کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی سمیٹتے ہوئے کشمیر کے سوال پر سلامتی کونسل کا خصوصی مشاورتی اجلاس منعقد کروانے کا کریڈٹ لے چکے ہیں۔ اب عدالت انصاف میں معاملہ لے جانے کا مقصد اس مسئلہ کو سلامتی کونسل کے کولڈ اسٹوریج سے عدالت انصاف کے سرد خانہ میں منتقل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کی بلند نگاہی، وزیر خارجہ کی سفارتی مہارت اور آرمی چیف کی اولوالعزم قیادت کے قصے سناکر پاکستانی عوام کا جوش و خروش کم کرنے اور زندگی معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر کی آئینی و انتظامی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ تو نئی دہلی میں ہؤا تھا لیکن اسلام آباد میں تحریک انصاف کی حکومت نے اس فیصلہ سے غم و غصہ و احتجاج کی ایسی بلند و بالا لہریں پیدا کیں کہ نہ تو ایک سالہ اقتدار کے دوران کارکردگی پر سوال اٹھانے کی نوبت آئی اور نہ ہی آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ کرنے کی حکمت پر کوئی متوازن اور حقیقی بحث ممکن ہو پائی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے موجودہ عہدہ کی موجوہ مدت نومبر کے آخر تک ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بھارت کے ساتھ تصادم کی وجہ سے فوج کی قیادت تبدیلی مناسب نہ ہوتا تو سوا تین ماہ پہلے ہی یہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کا حکم جاری کرنے کا کیا جواز تھا؟
مواصلت اور عالمی سفارت کاری کے موجودہ دور میں تین ماہ کی مدت میں حالات کسی وقت ، کوئی بھی نیا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ عمران خان نے بھارتی حکومت کے عاقبت نااندیشانہ فیصلہ پر ایک ہنگامی صورت حال پیدا کرتے ہوئے دراصل آرمی چیف کو توسیع دینے کے لئے موزوں حالات پیدا کئے ہیں؟
یہ معاملہ اپنی جگہ پر المیہ مزاح ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس وزیر اعظم کو مرضی کے وزیر اور مشیر رکھنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، وہ یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ ملک کا سب سے طاقت ور عہدہ کسے سونپا جائے یا اسے توسیع دی جائے۔ عمران خان کے اس اعلان سے ان کی دوربینی سے زیادہ ان کی مجبوری یا خوش فہمی عیاں ہوتی ہے۔ موجودہ سول ملٹری اشتراک اگرچہ عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش پوری کرنے کا سبب ضرور بنا ہے لیکن اس کے تحت ملک میں ایسا سیاسی انتظام استوار کیا جارہا ہے جس میں جمہوریت کے خصائص کے سوا سب کچھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا کی آزادی سرکاری بیانات اور دعوؤں تک محدود ہے، منتخب حکومت عسکری قیادت کے اشارے کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ، سینیٹ میں اکثریتی ارکان اقلیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ملک کے چاروں صوبوں کی مقبول قیادت جیلوں میں بند ہے اور باقی ماندہ کو پکڑنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔
اس صورت حال کو سول مارشل لا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت میں توسیع سے یہ الزام یقین میں بدلنے لگے گا۔ قومی سلامتی کی صورت حال کے علاو ہ بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے اس علاقے کے لئے کوئی خفیہ ایجنڈا تیار کیا ہے جس میں کشمیر کے مسئلہ کا حل بھی شامل ہے۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جنرل باجوہ کا عہدہ پر فائز رہنا ضروری تھا۔ اس سازش نما دعوے سے قطع نظر سول ملٹری تعاون کے بطن سے پیدا ہونے والی فسطائیت ملک کے جمہوری مستقبل کے بارے میں متعدد سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ ملک میں جمہوری آمریت مسلط کرنے کی کوششیں بھی کیا کسی ایسے خفیہ عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں جس میں بہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے اور خطہ میں ایک نیا توازن جنم لے گا۔
یہ باتیں بر سر عام کہی جارہی ہیں ۔ غیر یقینی حالات اور مشکل معاشی صورت حال میں پاکستان کے بارے میں نئی سازشوں کی افواہیں کسی کے مفاد میں نہیں ہیں۔ جمہوری طور سے منتخب وزیر اعظم جب انتہائی سفاکی سے بنیادی حقوق کی پامالی کا سبب بن سکتا ہے تو اسے کسی خفیہ یا طے شدہ ایجنڈا کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی حجاب نہیں ہونا چاہئے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)