( گزشتہ سے پیوستہ )
”اور ہاں مس تارا ایک اور بات یہ کہ مَیں اپنے خاندان گوری چٹی لڑکیاں دیکھ دیکھ کر تنگ آ گیا ہوں۔“
مَیں نے یہ بات کر تو دی مگر خود مجھے بھی یہ بے محل اور احمقانہ سی بات لگی …….. تارا زیرِ لب مسکرا رہی تھی بات بدلنا چاہی تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے خاندان کی امارت کے کچھ قصے سنا دیئے …….. اس روز مَیں بیحد فاؤ ل کھیل رہا تھا۔
”ہم تو متوسط لوگ ہیں۔ میرے والد چند ماہ قبل سرکاری محکمے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ صرف میری خواہش پر تعلیم کے بھاری اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔“ تارا بولی۔ تارا کا گھر آ گیا تھا۔ نہ تو مجھے توقع تھی اور نہ ہی تارا نے اپنے گھر رک کر چائے پینے کی دعوت دی۔ اس کا گھر ایک پرانے سے محلے میں تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور جلدی میں کار سے اُتر کر اپنے گھر میں داخل ہو گئی۔ گھر کے دروازے پر ایک پرانی سی تختی پر ”شیخ ایوب سیکرٹری (ریٹائرڈ) محکمہ اوقاف“ لکھا ہوا تھا۔ تارا چلی گئی تو مجھے احساس ہوا کہ مَیں نے اپنے احساسات صحیح طور پر تارا کے سامنے بیان نہیں کیے اور ایک اچھا موقع گنوا دیا ہے۔
تارا کو اس کے گھر چھوڑ کر آنا، اپنے گروپ کا لیڈر بن جانا، سر صدیقی کی نگاہوں میں قبولیت حاصل کرنا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ میں یکدم مقبول ہو جانا ایک ہی روز میں حاصل ہونے والے بہت سے ایسے اعزازات تھے کہ مَیں خود کو ایک اہم اور قابل قدر شخصیت سمجھنے لگ گیا۔ اگلے روز یونیورسٹی گیا تو میرا دماغ عرش پر تھا۔ گروپ کے طلبا اور طالبات میرے گرد جمع تھے اور اگلے سمسٹر میں تارا کے گروپ سے آگے نکلنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ معاً مجھے خیال آیا کہ تارا نظر نہیں آ رہی۔ اس کے گروپ کے طلبا سے پوچھا تو علم ہوا کہ وہ چھٹی پر ہے۔
کیوں خیریت تو ہے؟ مَیں نے دریافت کیا۔
اس کی سہیلی بینش بولی ”کل تارا کی منگنی تھی نا …. شاید اسی لیے آج نہیں آئی۔“
”منگنی تھی؟ کس کے ساتھ؟“ مَیں پریشان ہو کر بولا۔
سب ہنسنے لگے …….. بھئی اپنے کزن کے ساتھ“ بینش بولی ”منگنی تو ان کی بچپن میں ہو گئی تھی کل صرف ایک تقریب تھی ان کے گھر میں۔“
مجھے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ سب کیا بات کر رہے ہیں۔ کل مَیں نے تارا کو ڈراپ کیا تھا اس نے میرے ساتھ تو اس کا تذکرہ نہیں کیا …….. یہ منگنی یکدم کہاں سے آگئی۔ پھر مَیں نے سوچا کہ وہ میرے ساتھ اس کا ذکر کیوں کرتی، آخر کس ناتے سے۔
”کون ہے اس کا کزن؟“ ”کیا کرتا ہے؟“ مَیں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔ میری پریشانی دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔
”بھئی آپ کیوں اس قدر بیتاب ہیں؟ اس کا کزن کامرس میں پڑھتا ہے …….. اسی یونیورسٹی میں …….. امجد …….. امجد جھینپو ہم سب جانتے ہیں اسے …….. یہیں پھرتا رہتا ہے۔“ بینش بولی۔
”امجد تو ہوا …….. یہ جھینپو کیا بلا ہے؟“ مَیں نے پوچھا۔
”اس کی چھیڑ ہے …….. بس ہر وقت جھینپتا رہتا ہے۔“ سب خوشدلی سے قہقہے لگانے لگے۔
”بڑا Caring ہے۔ تارا کا بڑا خیال رکھتا ہے۔“ کوئی بولا۔
میرا سر گھوم رہا تھا۔ تارا کی منگنی ہو گئی اور مجھے علم ہی نہ ہوا …….. مگر مجھے علم کیوں کر ہوتا؟ …….. اور اگر تارا کی منگنی ہو گئی ہے تو مجھے اس کا دکھ کیوں ہے …….. مَیں شاید تارا سے متاثر ہو گیا تھا …….. شاید لاشعوری طور پر اس سے محبت کرنے لگا تھا …. شاید۔
یونیورسٹی سے گھر آ کر کچھ نہ سوجھا تو مَیں نے اماں سے کہا کہ میری ایک ہم جماعت کی منگنی ہو گئی ہے ہمیں اس کے گھر جا کر مبارکباد دینی چاہیے۔ مَیں چاہتا تھا کہ تارا سے ملوں، اس کے تاثرات دیکھوں کہ وہ اس رشتے سے خوش ہے بھی یا نہیں۔
اماں نے کہا ”ناں پتر ہم کس رشتے سے مبارکباد دینے جائیں۔ نہ جان نہ پہچان۔ لڑکیوں کے رشتے تو ہوتے رہتے ہیں۔“ شام کو ضد کر کے مَیں اماں اور چھوٹی بہن کو ساتھ لے کر تارا کے گھر پہنچ گیا۔ تارا ہمیں دیکھ کر حیران سی رہ گئی۔ دروازے پر تارا کے ساتھ میرا سامنا ہوا پھر مجھے بیٹھک میں بٹھا دیا گیا۔ ذرا دیر میں تارا اپنی بہن کے ہمراہ مجھے چائے دینے آ گئی۔ رسماً حال احوال پوچھا۔ میرے بجھے بجھے انداز سے وہ شاید میرے جذبات کا کچھ اندازہ لگانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
”امجد میرا کزن ہے، بچپن میں ہماری منگنی طے ہو گئی تھی اب بڑوں کے فیصلے کی وجہ سے یہ تقریب کرنی پڑ گئی …….. آپ کیک لیں نہایت لذیذ ہے مَیں نے خود بنایا ہے …….. مَیں کل سے یونیورسٹی آ جاؤں گی، امجد سے آپ کی ملاقات بھی کراؤ ں گی بڑا اچھا لڑکا ہے۔“
تارا بولتی چلی گئی اور پھر میرے چہرے کا جائزہ لینے لگی۔ ”دراصل یہ اس قدر جلدی ہو گیا کہ مَیں آپ سے تذکرہ ہی نہ کر سکی …….. ویسے وہ میرا بچپن کا منگیتر ہے۔“ تارا بولی۔ تارا کی بہن نے بغور تارا کو دیکھا اور میرے چہرے کا جائزہ لینے لگی۔ اسے یہ توجیہات بلا ضرورت محسوس ہو رہی تھیں۔ ذرا دیر میں اماں اور چھوٹی بہن جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بیٹھک میں مجھے بھی بلاوہ آ گیا۔ جب رخصت ہوئے تو تارا کچھ خاموش سی لگ رہی تھی۔ اماں بولیں ”بیٹا تو ہمیں یہاں کس لیے لے آیا تھا۔ ہمیں تو عجیب سا لگ رہا تھا …. کیا نام ہے اس کا تارا، اس نے تو حال احوال پوچھا مگر اس کے گھر والے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ تیرا کوئی چکر تو نہیں تھا اس لڑکی کے ساتھ؟“
میری چھوٹی بہن نے بغور میری طرف دیکھا ”بھائی جان! اچھی خاصی سانولی لڑکی تھی یہ آپ کی تارا …….. ویسے مجھے بھی یہاں آنے کی سمجھ نہیں آئی۔“
اماں بولیں: ”وہ لڑکی کیا سارے گھر والے ’شام رنگے‘ تھے لڑکی کی ماں تو اچھی خاصی لاکھی تھی تو کہاں ’شام کوٹ‘ لے آیا تھا ہمیں۔“
اماں کشمیری بٹ تھیں اور اس عمر میں بھی ان کی رنگت سرخ و سپید تھی۔
”دیکھ بیبا اب اس لڑکی …….. کیا نام ہے اس کا …….. تارا کی منگنی ہو گئی اب اگر تیرا کوئی چکر تھا بھی تو تین حرف بھیج مَیں نے بھلا شادی کرنی تھی تیری یہاں ……..“ اماں کی زبان پر ’شام کوٹ‘ آتے آتے رہ گیا۔
اماں انجانے وسوسوں میں گھِر گئی تھیں۔ کتنی باتیں بنائیں انہوں نے تارا اور اس کے خاندان کو۔ مَیں اماں کو تارا کے گھر لانے پر خجل سا محسوس کر رہا تھا۔
تارا یونیورسٹی آنا شروع ہو گئی تھی۔ ہم دوسرے سمسٹر کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ امجد اکثر فارغ پیریڈ میں تارا سے ملنے آ جاتا تھا۔ سادہ سی شکل کا لڑکا تھا۔ زرد رو، دبلا پتلا آنکھوں پر موٹے شیشوں والی عینک، میانہ قد، سُست، بالکل تارا کی ضد تھا۔ سنا ہے پڑھائی میں تیز تھا۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ہمیشہ اوّل پوزیشن لیتا تھا۔ مَیں اکثر اسے گلاب کی کیاریوں کے گرد تنہا پھرتے دیکھتا تھا۔ نظر بچا کے گلاب کا پھول توڑ لیتا اور جیب میں چھپا لیتا تھا۔ موقع ملتے ہی وہ پھول تارا کے حوالے کر دیتا۔ تارا مسکر کر اسے اپنے بیگ میں ڈال لیتی تھی۔ مجھے امجد ان حرکتوں کی وجہ سے بے حد چھچھورا لگتا تھا۔ شاید مَیں اس سے حسد کرنے لگا تھا۔ مجھے تارا پر غصہ آتا کہ یونیورسٹی بھر میں طلبا کو تلقین کرتی رہتی ہے اور اپنے منگیتر کو نہیں سمجھا سکتی۔ امجد ہونہار تھا مگر شاید اس میں اعتماد کی کمی تھی۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتا، کسی سے گفتگو کرتا تو نگاہیں چرا لیتا تھا۔ کوئی سوال کرے تو نہایت مختصر جواب دیتا تھا۔ جیسے ”وائیوا“ دے رہا ہو۔ میل جول سے احتراز کرتا تھا بس تارا کے آگے پیچھے پھرتا رہتا تھا جیسے اسے خوش رکھنا چاہتا ہو، تارا کو کوئی یقین دلانا چاہتا ہو۔ بات بات پر جھنیپ سا جاتا۔ اس کا نام جھینپو ٹھیک رکھا گیا تھا۔
مَیں تارا سے مخاطب ہوتا تو وہ باری باری تارا اور میرے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اندر ہی اندر وہ تارا اور مجھ پر شک کرتا تھا مجھ سے کچھ خائف رہتا تھا۔ مَیں کسی سوچ میں گم ہوتا تو امجد میرے چہرے پر نظریں گاڑے معلوم نہیں کیا جاننے کی کوشش کرتا رہتا۔
خود مجھے اپنے احساسات کی سمجھ نہ آ رہی تھی۔ مَیں نے کئی بار سوچا کہ کیا واقعی مَیں تارا سے محبت کرتا ہوں۔ اس سوال کے حل کے لیے گھنٹوں میرے دماغ میں کھلبلی سی مچی رہتی مگر واضح جواب نہ ملتا تھا۔ خود مجھے اس معاملے میں گھر والوں کی حمایت حاصل نہ تھا۔ اماں تارا کا نام سننا پسند نہ کرتی تھیں۔ اس خواب اور حقیقت کی جنگ میں دو سال گزر گئے اور یونیورسٹی سے رخصتی کا وقت آ گیا۔
چوتھا سمسٹر ختم ہونے کو تھا۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ نے الوداعی ٹرپ کا پروگرام بنایا۔ پروگرام کے مطابق ہمیں یونیورسٹی کی بسوں میں چھانگا مانگا جانا تھا اور پورا دن وہاں صَرف کر کے شام کو واپس لوٹنا تھا۔ امجد ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں نہ تھا لہٰذا اس ٹور کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں تارا بھی جانے سے انکار نہ کر دے۔ ٹرپ پر جانے سے ایک روز پہلے تارا مجھے نوٹس بورڈ کے سامنے مل گئی۔
”آپ سے ایک درخواست کرنا ہے۔“
”جی بولیں“ تارا خوشگوار انداز میں بولی۔
”کل ٹرپ پر ہمارے ساتھ ضرور چلیے گا۔“
”جی پوری کوشش کروں گی۔“ تارا مسکرا کر بولی۔
بس چلنے کو تیار تھی اور تارا ابھی نہیں آئی تھی۔ مَیں بیحد اداس تھا۔ مجھے اس روز تارا سے بہت سی باتیں کرنا تھیں۔ ہماری بس یونیورسٹی گیٹ سے باہر نکلی تو لڑکیاں چلا اٹھیں ”تارا آ گئی، تارا آگئی“ بس روک دی گئی۔ باہر رکشہ سے تارا اتر رہی تھی دوسری طرف سے امجد بھی اتر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر میری خوشی ماند پڑ گئی۔ بس میں صرف تارا سوار ہوئی۔ امجد اسے چھوڑنے آیا تھا۔ تارا کو بس میں آگے سیٹ مل گئی اپنی سہیلیوں کے ساتھ۔ بیٹھنے سے پہلے اس نے پوری بس میں نظر دوڑائی مجھے دیکھا تو دھیرے سے مسکرائی اور سیٹ پر بیٹھ گئی۔
اس روز مَیں نے اور تارا نے خوب باتیں کیں۔ وہ تقریباً سارا دن میرے ساتھ ہی رہی۔ مَیں اس روز بیحد خوش تھا کہ تارا کو اپنے دل کی کیفیت بتا دوں گا۔ امجد سے شادی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہوں گا۔ چھانگا مانگا کے جنگل میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے لڑکوں اور لڑکیوں نے خوب دھما چوکڑی مچائی۔ بیت بازی ہوئی۔ رسا پھلانگنے کا مظاہرہ ہوا۔ لڑکیوں نے ”کیڑی کاڑا“ کھیلا۔ لڑکے تاش اور شطرنج کی بازیاں لگاتے رہے۔ لطیفے سنائے گئے۔ کچھ خوش گلو لڑکوں نے گانے گائے اور افریقی طرز کا رقص کیا۔ لڑکیوں نے لڈی ڈالی۔ کھانے کے بعد ٹرین کی سیر کی گئی۔ مَیں تمام دن اسی انتظار میں رہا کہ تارا سے دل کی بات کہہ سکوں۔
کھانے کے بعد تارا میرے پاس آئی ”فاروق چلو جنگل کی سیر کرتے ہیں …….. آج مَیں نے تم سے ایک بات کرنا ہے۔“ مَیں تو خود اس موقعے کی تلاش میں تھا۔ ہم دونوں جنگل کے اندر دور تک چلتے گئے۔ تارا اپنی خوبصورت چال کے ساتھ اس روز میرے ساتھ تھی۔ میرا مدتوں کا ساتھ ساتھ چلنے کا خواب پورا ہو رہا تھا۔ مَیں اپنی بات کہنے سے پہلے تارا کی بات سننے کے انتظار میں تھا۔
”دیکھو فاروق تم جو کہنا چاہتے ہو میں اس سے واقف ہوں …. اور تمھارے جذبات سے بھی ۔ میں تمھارے جذبات کی قدر کرتی ہوں۔ تم ایک اچھے انسان ہو …. ہم نے دو سال کی مدت ایک ساتھ گزاری ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ تم مجھے چاہتے ہو اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ تم مجھے ہمیشہ چاہتے رہو …. یاد رکھو فاروق شادی چاہت کا اختتام ہوتا ہے …. میں ہمیشہ تمھیں یاد رکھوں گی اور تم بھی مجھے ہمیشہ یاد رکھنا ۔“
اس وقت میں تارا کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا مگر بعد میں مجھے یہ احساس ہوا کہ تارا نے نہایت خوبصورتی سے مجھے اپنے اپنے راستے الگ کرنے کا عندیہ دیا ہے میں کئی روز اس دُکھ میں گیلی لکڑی کی طرح سلگتا رہا۔ تارا ، امجد اور میں ہمیشہ اچھے دوست رہنے کے وعدہ پر یونیورسٹی سے نکلے تھے۔ چند ایک ملاقاتیں ہوئیں پھر اپنے اپنے روز و شب کی مصروفیات میں اُلجھ گئے۔ تارا نے مجھے اپنے جذبات سے آگاہ کر دیا تھا اس کے بعد تارا کے حصو ل کی جدوجہد کا کوئی جواز نہ تھا ۔
تارا کو ڈاکٹریٹ کےلئے مشی گن جانے کا سکالرشپ مل گیا۔ امجد بھی کامرس میں ماسٹرز کے بعد ڈاکٹریٹ کا خواہاں تھا۔ امریکہ جانے سے پہلے ان کے گھر والوں نے دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ شادی کا کارڈ مجھے امجد دینے آیا تھا …. مجھے دکھ ہوا کہ تارا کو بھی ساتھ آنا چاہئے تھا۔ آخری بار مجھے ملنا چاہئے تھا …. مگر کس ناتے سے؟ اس بات کا میرے پاس جواب نہ تھا۔ میں نے ایک بار بھی اس سے محبت کا اعتراف نہ کیا تھا …. اس روز بھی نہیں جب اس نے ہمیشہ چاہے جانے کی تمنا کی تھی۔ وہ جذبہ محبت تھا بھی یا نہیں؟ اگر وہ محبت ہوتا تو میں اس قدر آسانی سے تارا سے دستبردار کیوں ہو جاتا اس بات کا جواب بھی میرے پاس نہ تھا۔
امجد اور تارا شادی کے بعد امریکہ چلے گئے۔ مجھے ابا نے کاروبار میں الجھا لیا اور ایسا الجھایا کہ چالیس برس گزر گئے۔ اماں نے میری شادی اپنی بھانجی راشدہ کے ساتھ کر دی تھی۔ راشدہ چونکہ کشمیری خاندان سے تھی لہٰذا اماں کے خوبصورتی کے معیار پر پورا اترتی تھی۔ اماں کا نظریہ تھا کہ بیوی خوبصورت ہو تو بچے بھی خوش شکل ہوتے ہیں۔ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ماشاءاﷲ خوش رو ہیں جس کا سارا کریڈٹ اماں اپنی زندگی میں خود کو دیا کرتی تھیں۔ وہ بار بار اس بات کا اعادہ کرتیں کہ ”فاروق بچ گیا ہے۔“ راشدہ کشمیری دسترخوان کی شوقین تھی، گوری چٹی اور بھاری تن و توش کی مالک مگر چلنے پھرنے سے بالکل قاصر۔ جب وہ کہیں جانے کے لیے حامی نہ بھرتی تو مجھے دبلی پتلی اور تیز طرار تارا ضرور یاد آتی تھی اور اس کی خوبصورت چال بھی۔ ان چالیس برسوں میں اماں اور ابا دنیا سے چلے گئے مَیں کام کاج سے سبکدوش ہو گیا کاروبار کی باگ ڈور میرے دو بیٹوں نے سنبھال لی۔ پہلے سپلائی صرف لاہور چھاؤ نی میں تھی اب گوجرانوالہ، اوکاڑہ اور ملتان چھاؤ نی کے ٹھیکے بھی ہمیں مل گئے۔
مَیں صبح سویرے پارک میں سیر کرنے کا عادی ہوں۔ اسی سال کے اوائل کا واقعہ ہے، مارچ کا پہلا ہفتہ تھا۔ سیر کرتے ہوئے ٹریک سے اُتر کر پارک میں چلا گیا جدھر گلاب کے پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ سرخ گلابوں کی فصل اپنے جوبن پر تھی۔ نرم و نازک پتیوں پر شبنم پڑی ہوئی تھی۔ مَیں روزانہ سیر کے اختتام پر اس کیاری کے قریب رکھے بنچ پر ضرور بیٹھتا اور تارا کو یاد کیا کرتا تھا۔ اسے گلاب کے تازہ پھول پسند ہوتے تھے۔ کیاری کے ساتھ ہی ”پھول توڑنا منع ہے“ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ بورڈ کے ساتھ ہی ایک میری عمر کا ادھیڑ عمر شخص اکڑوں بیٹھا گلاب کے ایک پھول کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ پہلے تو مَیں یہ سمجھا کہ وہ پارک کا اہلکار ہے یا کوئی بوٹانیکل کا ماہر مگر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے نہایت سرعت اور مہارت سے گلاب کا پھول توڑا اور واسکٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ مجھے اس کے انداز سے یکدم امجد کا خیال آیا جو یہی حرکت چالیس برس قبل کیا کرتا تھا۔ مَیں اس شخص کے قریب گیا تو وہ گھبرا گیا۔ غور سے دیکھا تو وہ امجد ہی تھا …….. امجد جھینپو! وہ بھی مجھے پہچان گیا تھا …….. ”امجد صاحب!“ مَیں نے آواز دی مَیں نے اب اسے باوقار اور باریش دیکھ کر ”صاحب“ کا لاحقہ لگا لیا تھا۔ جھینپو میری زبان پر آتے آتے رہ گیا۔ ہم بغلگیر ہو گئے۔ ”امریکہ سے کب آئے؟ تارا کیسی ہے؟ کہاں رہتے ہو؟“ مَیں نے کئی سوال ایک سانس میں کر ڈالے۔ ہم دونوں کیاری کے ساتھ والے بنچ پر بیٹھ گئے۔ امجد بولا ”دو سال قبل تارا اور مَیں امریکہ سے واپس آگئے تھے۔ تین بیٹے امریکہ میں سیٹل ہیں۔ تارا نے ایک بزنس سکول کھول رکھا ہے، پاکستان بھر میں اس کی درجنوں شاخیں ہیں۔“
”واہ بھئی تم دو سال سے یہاں ہو مگر ملاقات تک نہیں کی۔“
”تم آؤ نا ہمارے دفتر میں تارا تمہیں دیکھ کر بیحد خوش ہو گی۔“ امجد بولا۔ مَیں حیران تھا کہ یہ بات امجد اتنے اعتماد سے کہہ رہا ہے۔ اس کی تو ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ مَیں تارا کے سامنے نہ آؤ ں وہ اب مجھ سے قطعی خائف نہیں لگ رہا تھا۔ چالیس برسوں نے ان کا رشتہ شاید بیحد مضبوط کر دیا تھا۔
”ہاں مَیں ضرور آؤ ں گا۔ آج ہی تارا سے ملوں گا“۔ مَیں نے یقین دہانی کرائی۔
”تم دس بجے تک آ جانا پھر فیزیو تھراپسٹ کے آنے کا وقت ہو جائے گا۔ تارا تمہارا انتظار کرے گی۔“ امجد نے پرس میں سے اپنا بزنس کارڈ نکال کر دیا۔ گلبرگ میں ہی دفتر تھا۔ ایک بلند و بالا عمارت کی چوتھی منزل پر۔
مَیں اس روز بیحد خوش تھا۔ راشدہ کو مَیں نے تارا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ اس نے میری غیر معمولی تیاری کے بارے میں بازپرس کی تو مَیں نے بتایا کہ ایک بزنس میٹنگ میں جا رہا ہوں۔ راشدہ نے غیر یقینی انداز میں ”ہوں“ کہا۔ میرے ذہن میں تارا کا تیز طرار پھرتیلا سراپا آ رہا تھا نجانے تارا اب کیسی لگتی ہو گی۔ مَیں نے پرفیوم کا سپرے کرتے ہوئے سوچا۔ پارک میں اکثر جوڑے سیر کی غرض سے آتے تھے۔ مجھے فربہی زدہ راشدہ کا اپنے ساتھ سیر کرتے ہوئے سوچ کر الجھن سی ہوتی تھی۔ مَیں چشمِ تصور میں تارا کو اپنے ساتھ سیر کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔
تارا ایسوسی ایٹ کی ریسپشنسٹ نے لفٹ سے نکلتے ہی مجھے تارا کے دفتر میں پہنچا دیا تھا۔ تارا ویسی ہی دبلی پتلی اور ہشاش بشاش تھی، اس کا رنگ پہلے کی نسبت کھِلا کھِلا سا لگ رہا تھا۔ اس نے دلکش مسکراہٹ سے مجھے خوش آمدید کہا۔ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور یکدم ڈھیر سارے سوال کر دیئے۔ کاروبار، خاندان، صحت، موسم اور ہم جماعتوں کے بارے میں۔ انٹرکام پر امجد کو آنے تلقین کی۔ کافی کا آرڈر دیا اور ریوالونگ چیئر پر آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ ذرا سی دیر میں امجد بھی ہماری گفتگو میں شریک ہو گیا۔ اس کا اعتماد دیدنی تھا۔ اس نے ایک بار بھی تارا کی نگاہیں دیکھ کر میرے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی کمرے میں داخل ہونے سے قبل چھپ کر جھانکا تھا۔ میرا خیال تھا کہ امجد ملاقات کے دوران ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا وہ بیحد Possessive تھا مگر اس روز وہ بیحد پُراعتماد، ہمیں گپ شپ کرنے کی تلقین کر کے اپنے دفتر واپس چلا گیا۔ تارا نے جی بھر کے باتیں کیں۔ پرانے دور کو یاد کیا اور دوبارہ بلکہ اکثر ملتے رہنے کی تلقین کی۔ امجد کا صبح کا توڑا ہوا گلاب تارا کے سامنے رکھا تھا۔
رخصت ہوتے وقت مجھے پورا یقین تھا کہ تارا اپنی کرسی سے اُٹھ کر نپے تلے انداز میں چلتے ہوئے لفٹ تک مجھے الوداع کہنے ضرور آئے گی مگر اس نے بیٹھے بیٹھے ہی میز کا سہارا لے کر اپنی کرسی کو ذرا سا پیچھے دھکیلا اور مسکراتے ہوئے مجھے بائے بائے کہہ دیا۔
کرسی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے تارا کا نچلا دھڑ دیکھ کر مَیں سناٹے میں آ گیا۔ تارا کی ریوالونگ چیئر دراصل وہیل چیئر تھی۔ وہ بیس برس قبل امریکہ میں قیام کے دوران سڑک کے حادثے میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گئی تھی۔ تارا کا وزیٹنگ کارڈ میرے ہاتھ میں تھا۔ لفٹ میں دیکھا تو کارڈ کی پشت پر Missed You لکھا تھا اور نیچے Tara لکھ کر فل سٹاپ کے طور پر ایک چھوٹا سا ستارہ بنایا ہوا تھا …….. ایک روشن ستارہ۔
فیس بک کمینٹ