23 مارچ کے پس منظر کے حوالے سے عرض کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 23 مارچ کا پیغام اہل وطن کیلئے ” ہم سب ایک ہیں “ ہونا چاہئے ، ہر طرح کی انتہا پسندی دہشت گردی اور ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے ، سب کو برابر حقوق اور برابر ترقی کے مواقع ملنے چاہئیں ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ 23 مارچ اہل وطن کیلئے قومی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی دن لاہور میں علیحدہ وطن کیلئے قرارداد منظور کی گئی جوکہ بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی تہوار تجدید عہد کے طور پر منائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سب کچھ رسمی طور پر ہوتا ہے۔ اگر ہم نے ہر سال قرارداد کے مقاصد پر غور کیا ہوتا اور عمل کی کوئی صورت نکالی ہوتی تو آج پاکستان دو لخت نہ ہوتا اور ہم اپنے ہی گھر میں بدترین دہشت گردی کا شکار نہ ہوتے ۔ پہلا موقع ہے کہ ہماری عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہے ۔ آج تک کسی بھی حکومت نے مسائل کا سنجیدگی سے ادراک نہیں کیا جو بھی آیا اس نے ڈنگ ٹپاؤ نام نہاد مفاہمتی پالیسیوں کے ذریعے ملک کا سیاسی ، سماجی جغرافیائی و ثقافتی اعتبار سے ستیاناس کیا ۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کو برباد و دو لخت کرنے کے ذمہ دار ٹھیکہ داروں نے ہمیشہ عقل و دانش کی بات کرنے والوں کو غیر محب وطن قرار دے کر غداری کے فتووں سے چھلنی کیا ۔ آج فتویٰ فروشوں کا کاروبار مندا ہوا ہے تو پاکستان کے حقیقی محب وطن افراد کی طرف سے سوالات اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کے جوابات پوری دنیا کے غیر جانبدار مبصرین کے ساتھ ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کی ضرورت بھی ہیں کہ اس سے پاکستان کی تاریخ کو درست سمت دینے میں مدد ملے گی۔ اگر خدانخواستہ سابقہ ادوار کی طرح سوال گندم جواب چنا آتا رہا تو یہ کسی بھی لحاظ سے پیارے وطن پاکستان کی خدمت نہ ہو گی ۔
23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی، اس اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی ۔اس جگہ پر یادگار بنانے کا فیصلہ ہوا۔ 1960ء میں ” پاکستان ڈے میموریل کمیٹی “ قائم کی گئی ، بائیس رکنی کمیٹی میں معروف شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم بھی شامل تھے، یادگار کو روسی نژاد ترک مسلمان مرات خان نے بنایا، اس کی بلندی 196 فٹ ہے، مینار پاکستان پر 19 تختیاں نصب ہیں، اردو ، انگریزی زبان میں قرارداد لاہور کا متن درج ہے، اس میں خودمختار ریاستوں کے الفاظ شامل ہیں ۔ ان ریاستوں کا مطلب صوبے تھے، صوبوں کو اختیارات اور خود مختاری تو کیا صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا ۔ ون یونٹ ختم ہوا تو سرائیکی وسیب کے لوگوں کا آج تک صوبہ واگزار نہیں ہوا۔ لاہور میں بنائی جانیوالی یادگار کے لفط ” یادگار “ پر اعتراض ہوا کہ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کی ہوتی ہے ، پاکستان زندہ ہے، اس کی یادگار بنانا کونسی دانشمندی ہے؟ اعتراض کے بعد اس کو ” مینار پاکستان “ کا نام دیا گیا لیکن لاہوری آج بھی اسے یادگار ہی کہتے ہیں، جب یادگار بنائی جا رہی تھی تو بنگالی سیاستدانوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر لاہور میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی یادگار بنائی جا رہی ہے اور کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے تو اس طرح کی ایک یادگار مشرقی پاکستان میں بھی بنائی جائے جہاں 1906ء میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی ۔ سندھ سے بھی یہ آواز آئی کہ قرارداد لاہور سے قبل سئیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی سے تین سال قبل متفقہ طور پر قرارداد منظورکرائی لیکن اس کی کوئی یادگار نہیں بنائی گئی ۔البتہ اس موقع پر ان کے ذہنوں میں جو ” یادگار “ بنی وہ یہ تھی کہ بنگالیوں اور سندھیوں سے امتیازی سلوک ہو رہا ہے ۔
یادگاروں کا ذکر آیا ہے تو ہم ان یادوں سے سبق حاصل کرنا ہو گا، جو ہمارے لئے نقصان کا باعث بنیں ۔ اس سلسلے میں 21 مارچ 1948ء کا دن یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قائداعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کا اعلان انگریزی میں کیا۔ مشرقی پاکستان میں سخت رد عمل سامنے آیا۔ انہوں نے اس پر اعتراض کیا کہ بنگال میں نہ کوئی اردو بول سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے، مشرقی پاکستان میں اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان قرار دیا جائے، ان کی بات پر توجہ نہ دی گئی، ان کو غدار قرار دیا گیا، بنگالیوں نے احتجاج کیا اور 21 فروری 1952ء کو ڈھاکہ میڈیکل کالج اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے بنگلہ زبان کے حق میں جلوس نکالا ، پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اندھا دھند فائرنگ کر کے بہت سے طلبہ شہید و زخمی کر دئے ، اقوام متحدہ نے بنگالی شہید طلبہ کی یاد میں 21 فروری کو ” ماں بولی کا عالمی دن “ قرار دیا ۔بنگلہ دیش حکومت نے ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں ماں بولی کیلئے شہادت کا جام پینے والے طلبہ کی یاد میں ” یادگار شہدا “ کے نام سے بہت بڑی یادگار بنائی ہے، اس یادگار کا درس یہ ہے کہ بقیہ پاکستان کی تمام زبانوں کو ان کا حق دیا جائے تاکہ ڈھاکہ یونیورسٹی کی طرح کوئی اور یادگار نہ بنے ۔
ایک سوال یہ ہے کہ جدوجہد آزادی کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ کی برسی پر 23 مارچ کو پورے ہندوستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ حالانکہ بھگت سنگھ کا تعلق سرائیکی وسیب کے مردم خیز خطے سابقہ تحصیل لائل پور ضلع جھنگ سے تھا ۔ اور اس وقت لائل پور ملتان کمشنری کا حصہ تھا ۔ بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907ءکو جڑانوالہ میں پیدا ہوئے ۔ وہ تحریک آزادی کا ہیرو تھا ۔ انگریز سپرٹینڈنٹ پولیس کو قتل کرنے اور پنجاب اسمبلی کے سامنے دھماکہ خیز مواد پھینکنے کے جرم میں مقدمہ درج ہوا ۔ 23 مارچ 1931ءکو ان کو لاہور میں پھانسی دے دی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ تحریک آزادی کے ہیرو جس کا تعلق موجودہ پاکستان کے علاقے سے تھا ، ہندوستان میں تو اس کا یوم قومی سطح پر منایا جاتا ہے ، اس کا ذکر پاکستان میں کیوں نہیں؟
ایک سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کے لوگوں کو سلطنت قائم کرنے کیلئے اپنی سرزمین دی اور پاکستان کے نام پر انڈیا سے آنے والے پناہ گزینوں اور لٹے پٹے مہاجرین کے قافلوں کو صرف پناہ ہی نہیں بلکہ اپنی قیمتی املاک ، اراضی اور جائیدادیں بھی دیں آج وہ مجرم اور دوسرے درجے کے شہری کیوں ہیں اور جن لوگوں نے یہاں آ کر عافیت حاصل کی وہ ڈنڈے کے زور پر یہ بات کیوں تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ قربانی تمہاری نہیں بلکہ ہماری ہے اور اسے تسلیم کرو ۔ کسی بھی مقامی شخص نے آج تک کسی طرح کا احسان نہیں جتوایا حالانکہ وہ اچھائی اور احسان کرنے والے تھے۔ جب بات ہی الٹ چلا دی گئی تو پھر مقامی لوگوں میں خیال پیدا ہوا کہ ہم نے کونسا جرم کیا ہے ؟ جس کی ہمیں مسلسل ذہنی اذیت کے ذریعے سزا دی جا رہی ہے ۔ پھر یہ سوال اور بھی زیادہ شدت سے ابھر کر سامنے آیا کہ جب ہمارے مہاجر و آبادکار بھائی جہا ں سے ستم اٹھا کر آئے ان سے ان کا دلی میلان اور ہمدردیاں بڑھتی گئیں اور مقامی لوگوں سے کم ہوتی گئیں۔ جیسا کہ لاہور میں مشرقی پنجاب سے سکھوں کے قافلے آتے ہیں وہاں جشن کا سماں ہوتا ہے جبکہ سرائیکی وسیب سے کوئی ضرورت مند ” سرکاری فائل “ کی مجبوری کی وجہ سے لاہور جاتا ہے تو اسے کمی اور شودر سمجھا جاتا ہے ۔یہی وجوہات تھیں جن کی بناء پر سرائیکی قومی سوال پیدا ہوا۔ پھر سرائیکی وسیب کے لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ یہاں ہر طرح کی یادگاریں اور مینار بنائے جا رہے ہیں مگر قربانیاں دینے والے دھرتی کے وارثوں کو محروم رکھا جا رہا ہے ۔یہ سوال اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آیا جب پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں نے والٹن لاہور میں سرائیکی وسیب کے سرمائے سے مہاجرین کی یادگار بنانے کا اعلان کیا ۔ یہ تمام امور پاکستان کے قومی سوال سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس کے پس منظر کا جائزہ ہر محب وطن پاکستانی پر فرض ہے۔
اہل دانش خصوصاً یونیورسٹیوں کے ریسرچ سکالروں کے جواب طلب چند سوالات یہ بھی ہیں کہ قرارداد پاکستان 23 مارچ نہیں بلکہ 24 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں لفظ پاکستان شامل نہ تھا ۔ یہ قرارداد لاہور کہلائی اور بعد میں اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ یہ کیوں ہوا ؟ طالبعلموں کو اس کا تسلی بخش جواب ملنا چاہئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ چوہدری رحمت علی کے لفظ پاکستان کو مان لیا گیا ۔ جب چوہدری رحمت علی نے لفظ پاکستان کی تشریح ”پ“ سے پنجاب ، ”الف“ سے افغانیہ، ”ک“ سے کشمیر ،” س“ سے سندھ اور ”تان“ سے بلوچستان کی تو بنگال نے اس پر کہا کہ اس میں سندھی ، پنجابی ، بلوچ ، پشتون جو کہ مغربی پاکستان سے ہیں کی قومیتوں کو تو تسلیم کر لیا گیا مگر بنگالی جو کہ ان سب سے زیادہ ہیں، کو پاکستان سے کیوں نکال دیا گیا؟ اس کا چوہدری رحمت علی اور دوسرا کوئی ذمہ دار شخص جواب نہ دے سکا ۔ البتہ بنگالیوں کے وزنی احتجاج پر بعض پاکستانی دانشوروں نے کہا کہ پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کی سر زمین ہے ۔ ” پاک “ کا مطلب پوچھا گیا تو کہا گیا ” مسلمان “ ۔ اس پر اقلیتوں نے کہا کہ اگر پاک کا مطلب مسلمان ہے تو پھر ” ناپاک “ اقلیتیں کہاں جائیں ؟ اس کا ان کو جواب آج تک نہیں مل سکا۔ تین سوال اول یہ کہ قرارداد لاہور 24 مارچ کو منظور ہے۔ اب 23 مارچ یوم قرارداد پاکستان کیوں ہے ؟ پاکستان 15 اگست کو آزاد ہوا اور 14 اگست کو یوم آزادی کیوں؟ اور بنگالیوں کے بغیر لفظ پاکستان کا مطلب ‘ کیا بنگالیوں سے قیام پاکستان سے پہلے ہی چھٹکارا مقصود تھا ؟ مزید یہ کہ اگر اب بقیہ پاکستان کے لفظ کی وہی وضاحت ہے تو پھر پاکستان کی سب سے بڑی سرائیکی قوم کیلئے اس میں کیا پیغام ہے ؟
فیس بک کمینٹ