جماعت اہل حدیث کا مولوی ابتسام الہی ظہیر ہفتہ کو سرگودھا میں ختم نبوت کانفرنس منعقد کر رہا ہے۔ اس کے والد احسان الہی ظہیر نے 1970 میں پتوکی ضلع قصور سے پیپلز پارٹی کے امیدوار راؤ شفاعت مرحوم کے خلاف قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ میرے والد اس وقت پیپلزپارٹی کے نوجوان اور جوشیلے کارکن تھے اور انہوں نے پورے حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے لیے زبردست مہم چلائی تھی۔ میرے والد اور ان کے ساتھیوں کی انتھک جدوجہد اور سیاسی سرگرمیوں سے احسان الہی ظہیر شدید خوفزدہ ہو گیا تھا اور اسے اپنی شکست صاف نظر آنے لگی تھی ۔ انتخاب سے پہلے غلہ منڈی پتوکی میں اس نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر رضا مہدی باقری (میرے والد) کو پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ انتخاب کا نتیجہ آیا تو اس کی ضمانت ضبط ہو گئی اور میرے والد کو پھانسی چڑھانے کا اس کا خواب بھی چکناچور ہو گیا۔ پھر ایک دن وہ خود اپنے کسی مخالف کے ہاتھوں مارا گیا۔
کل میں نے سرگودھا میں ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کا پوسٹر دیکھا جس میں احسان الہی ظہیر سمیت اہل حدیث جماعت کے مختلف رہنماؤں کی تصویریں تھیں۔ انہی تصویروں میں ایک تصویر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین، سابق صدر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بھی تھی جس کے نیچے "محسن ختم نبوت” درج تھا۔ کسی جیالے نے یہ تصویر بڑے فخر سے پوسٹ کر کے نیچے "زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ لکھا ہوا تھا.
جب ذوالفقار علی بھٹو کی دختر محترمہ بے نظیر بھٹو 1988 میں امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے سازباز کر کے وزیراعظم بنیں تو مولویوں نے عورت کی حکمرانی کے خلاف آواز بلند کر دی۔ ان مولویوں میں جمیعت علمائے اسلام کا دیوبندی رہنما مولوی فضل الرحمان بھی شامل تھا۔ نوازشریف نے اس مہم جوئی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اس وقت کے جہادی جرنیلوں (جنہیں بےنظیر نے اپنی شہادت سے کچھ سال پہلے اور نائن الیون کے سانحے کے بعد جہادی جرنیل کہنا شروع کر دیا تھا) نے اسی کی دہائی میں ہونے والے افغان جہاد کے ہیرو اسامہ بن لادن سے رابطہ کیا۔ اسامہ بن لادن اس وقت سی آئی اے کا ایجنٹ تھا اور اس نام نہاد جہاد سے فارغ ہو کر سعودی عرب جا چکا تھا۔جہادی جرنیلوں نے اسامہ کا تعارف میاں نواز شریف سے کروایا۔نوازشریف نے بن لادن کو کہا کہ ابھی جہاد ختم نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کی اسلامی ریاست پر ایک عورت کی حکمرانی کا عذاب نازل ہو چکا ہے۔ اسامہ بن لادن نے عورت کی حکمرانی کا عذاب ختم کرنے کے لیے نواز شریف کو بھاری رقم دی ۔نوازشریف نے یہ رقم قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اور اس کے حامیوں میں تقسیم کی اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ نواز شریف، جہادی جرنیلوں، صدر غلام اسحاق خان، اسامہ بن لادن، مولوی فضل الرحمان اور دوسرے ملاؤں کی توقعات کے برعکس اور بےنظیر کی بہترین سیاسی حکمت عملی کی بدولت یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔
عارضی طور پر پیپلز پارٹی کے مخالفین کو تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر نامدار ان مخالفین کے کام آئے۔ زرداری صاحب نے دونوں ہاتھوں سے بدعنوانی کرنا شروع کر دی اور اسے بہانہ بنا کر 1990 میں غلام اسحاق خان نے بےنظیر حکومت برطرف کر دی۔ اس وقت میرے لیے اور میرے والد اور پیپلز پارٹی کے لاکھوں حامیوں کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔ یہاں سے زرداری نے پیپلزپارٹی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا آغاز کر دیا۔ بینظیر بھٹو بھی اس وقت کی پاکستانی سیاست کو سمجھ گئیں اور انہوں نے اپنی سیاست کو آگے بڑھانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے دولت کا سہارا لینے اور اسٹیبلشمنٹ اور ملاؤں کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
مولوی فضل الرحمان، جو بعد میں مولوی ڈیزل کے نام سے مشہور ہوا، نے یوٹرن لیا اور عورت کی حکمرانی کا حامی ہو گیا۔ 1993 میں بےنظیر بھٹو ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں اتریں اور دوسری بار وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو گئیں۔ انہوں نے تسبیح ہاتھ میں پکڑ لی اور خود کو مذہبی رنگ میں رنگ لیا۔ مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب ان دنوں علیل ہو گئے تو محترمہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئیں۔ اس وقت بھی تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی ۔حبیب جالب نے محترمہ کے چہرے کی طرف بغور دیکھنا شروع کر دیا ۔کچھ دیر بعد محترمہ نے ان سے پوچھا کہ وہ اتنے غور سے ان کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں۔ جالب نے تاریخی جواب دیا اور بولے، "بی بی!! میں آپ کے چہرے پر داڑھی تلاش کر رہا ہوں”.
بےنظیر بھٹو کے چھوٹے بھائی مرتضیٰ بھٹو اس دوران وطن واپس آ گئے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ، بےنظیر کی حکومت اور آصف زرداری کی بدعنوانی کے خلاف ملک گیر مہم کا آغاز کر دیا۔ ایک جلسے میں مرتضیٰ نے اپنی بہن کی تسبیح کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بےنظیر تسبیح کرتے ہوئے آیت الکرسی نہیں بلکہ کرسی کرسی کا ورد کرتی ہیں. اسی دوران افعانستان میں پاکستان کے جہادی جرنیلوں نے طالبان کی حکومت قائم کر دی۔ بےنظیر بھٹو کی حکومت نے نئی اسلامی بنیادپرست اور مذہبی جنونی طالبان حکومت کو فوراً قبول کر لیا۔ بےنظیر حکومت کے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیراللہ خان بابر نے طالبان کو اپنے بچے قرار دے دیا جس پر بےنظیر بھٹو خاموش رہیں۔
اسٹیبلشمنٹ مرتضیٰ بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں سے گھبرا گئی اور 1996 میں انہیں کراچی میں ان کی رہائش گاہ کے سامنے گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ اس سانحے کے کچھ ماہ بعد ہی پیپلزپارٹی کے اپنے صدر اور پرانے سیاسی رہنما فاروق احمد خان لغاری نے بےنظیر حکومت کو ایک بار پھر بدعنوانی کے الزامات لگا کر برطرف کر دیا۔ آصف علی زرداری کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کا زوال جاری تھا۔ اس مرتبہ بےنظیر حکومت کی برطرفی پر پیپلز پارٹی کے ووٹر کو کوئی خاص دکھ نہیں ہوا ۔1997 کے عام انتخابات میں پی پی پی کا ووٹر ووٹ دینے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلا اور غریب طبقے کی امیدوں کا مرکز یہ جماعت پورے ملک میں بری طرح ناکام ہو گئی۔
2001 میں نیویارک میں نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا جس کے بعد ساری دنیا کا سیاسی منظرنامہ بدل گیا۔بےنظیر بھٹو اس بار اسلامی جہادیوں اور مذہبی انتہاپسندوں کی بڑی مخالف بن کر سامنے آئیں اور انہوں نے اپنے نئے بیانیے کے ذریعے دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل کر لی۔ 18 اکتوبر 2007 کو وہ وطن واپس لوٹیں تو کراچی میں ملک بھر سے آئے ہوئے چالیس لاکھ افراد نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔1997 میں ہاری ہوئی پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوامی طاقت کے بل بوتے پر اٹھ کھڑی ہوئی ۔بےنظیر بھٹو کے جلوس کے دوران کارساز کے قریب ان پر خودکش قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئیں لیکن سینکڑوں کارکن شہید ہو گئے۔ عوام کے بھرپور استقبال نے بےنظیر بھٹو کے اندر ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا۔ کارساز سانحے کے بعد بھی انہوں نے دلیری کے ساتھ اپنی انتخابی مہم جاری رکھی۔ بےنظیر کی مقبولیت اور عوامی ابھار نے بزدل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر خوفزدہ کر دیا اور 27 دسمبر 2007 کو بےنظیر بھٹو راولپنڈی کے جلسہ عام کے بعد ایک اور قاتلانہ حملے میں شہید کر دی گئیں۔
بےنظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کا بھی بتدریج خاتمہ ہو گیا۔ اس وقت پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کی تین کٹھ پتلی جماعتوں میں سے ایک ہے جس کی قیادت بدعنوان اور موقع پرست سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے. ملک میں طالبانی ذہنیت کا راج ہے۔ چالیس سال قبل ضیاءالحق کا لگایا ہوا جہادی پودا تن آور درخت بن چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کی تینوں کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں مذہبی جنونیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ طالبانی انتہاپرست نظریات اسٹیبلشمنٹ کے زیرتسلط علاقوں کے ہر محب وطن گھر میں پہنچ چکے ہیں۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ہندوستان کے انتہاپسند اہل حدیث مسلمان عالم ذاکر نائیک کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ اس دعوت کا مقصد آنے والے انتخابات میں جنوبی پنجاب سے جہادی ووٹ حاصل کرنا ہے۔
انبساط الہی ظہیر کے پوسٹر پر ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر ثابت کر رہی ہے کہ بھٹو صاحب دراصل کیا تھے اور ان کا تاریخی کردار کیا تھا. جیالے اب بھی "زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ لگاتے ہیں ۔لیکن وہ کس نظریے سے یہ نعرہ لگاتے ہیں اور بھٹو آج کس روپ میں زندہ ہے اس کی نوعیت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے۔
آج کا محنت کش طبقہ جو اکثریت میں ہے، تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے کھوکھلے نعروں سے لاتعلق ہو کر زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس طبقے کو دو وقت کی روٹی، علاج، پانی اور چھت جیسی بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں ہیں. اس صورتحال میں محنت کش عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس ملک اور دنیا بھر کی بقا صرف اور صرف امیر اور غریب کے باہمی تضاد کو ختم کرنے میں ہے. آزادی کا اس کے سوا کوئی اور مطلب نہیں ہے کہ عوام کو غربت، افلاس، بیماری، بےروزگاری اور مہنگائی کے عذابوں سے نجات دلائی جائے. اس کے لیے ایک طویل اور صبرآزما سوشلسٹ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے لیے دنیابھر کے محنت کشوں، مظلوموں اور محکوموں کو تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف طبقاتی بنیادوں پر اکٹھا ہونا ہو گا کیونکہ یہ مذہبی یا قومی نہیں بلکہ طبقاتی جنگ ہے۔
فیس بک کمینٹ