اپریل کا مہینہ ہماری سیاسی خصوصاً آئینی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے خصوصاً دس اپریل دس اپریل 1973 وہ تاریخ ہے کہ جس دن پاکستان کا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پارلیمنٹ سے منظور کرایا اسی طرح آٹھ اپریل 2010 کو آصف علی زرداری کی حکومت نے اٹھارویں ترمیم پر بحث شروع کرائی اور دس اپریل کو آئین اپنی اصل شکل میں بحال ہوا کہ جس کو دو آمروں نے مسخ کر دیا تھا، اپریل ہی تھا کہ جب پاکستان کا آئین بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل کی صبح پھانسی دی گئی، تب بھی اپریل تھا کہ جب اسٌی بھٹو کی بینظیر بیٹی طویل جلا وطنی کاٹ کر لاہور اتری تو لوگوں نے اس کا ایسا استقبال کیا جیسے صحرا کے لوگ بارش کا کرتے ہیں…
پاکستان کا سب سے بڑا بحران آئینی بحران ہے یہ بات جس طرح پیپلز پارٹی کو سمجھ آتی ہے وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو آج تک سمجھ نہیں آ پائی اسی لیے بھٹو نے حکومت حاصل کرتے ساتھ اپنی توجہ سب سے پہلے آئین سازی پر مرکوز کی تھی اعلیٰ ترین جمہوری دماغ ایک جگہ اکٹھا ہوئے اور ایک ایسی دستاویز تیار کی گئی کہ جس نے اس ریاست میں رہنے والے ہر مکتبہِ فکر کے لوگوں کو ایک آئین پر اتفاق کرنے کے لیے قائل کرلیا، اور آج آپ دیکھیے کہ مولانا فضل الرحمان سے لے کر میاں نواز شریف تک تحریکِ لبیک سے تحریکِ انصاف تک، ایم کیو ایم سے اے این پی تک، سپریم کورٹ سے لے کر پاکستان آرمی تک، منظورِ پشتیں سے شاہ زین بگٹی تک، زید حامد سے جبران ناصر تک، خلیل الرحمٰن قمر (جن سے عمران خان نے سیاسی حالتِ نزع میں مشورہ لیا) سے لے کر ماروی سرمد تک، اوریا مقبول جان سے مطیع اللہ جان تک ہر کوئی اسی آئین کو مقدم اور مقدس مانتا ہے… ایک دو وہ بھی ہیں کہ جن کو یہ آئین کاغذ کا چیتھڑا لگا لیکن آج وہ خود تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے لرز رہے ہیں ابھی چند روز قبل سنجے دت کو حسرت سے تکتے نظر آئے تھے ۔۔
یہ آئین ذوالفقار علی بھٹو اور اسکی پیپلز پارٹی کا کارنامہ ہے، یہ کارنامہ کوئی فلوک نہیں ہے، کسی اندھے کے ہاتھ آیا بٹیرا نہیں ہے، یہ آمریت کے مہیب سائیوں میں جلنے کی کڑہن ہے، یہ اسٌ خاموش جدو جہد کا ثمر ہے کہ جو پاکستان کی عوام نہ چاہتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے کہ وہ کسی جدو جٌہد کا حصہ ہیں 1949 سے کر رہے تھے اس جدو جٌہد کے بیشمار گم نام اور نامور باب ہیں جس میں نو سالوں میں سات وزراء اعظم کی تقریریاں اور معزولیاں ہیں، اسی میں کہیں راولپنڈی سازش کیس ہے، تو کہیں لیاقت علی خان کی لاش ہے، کہیں تحریکِ پاکستان کے عظیم رہمناؤں کی قرارداد مقاصد کے منظور ہوجانے پر گمبھیر خاموشی ہے، تو کہیں انہی جناح کے عظیم ساتھیوں پر غداری کے گونجتے الزام ہیں، یہیں کہیں 1956 میں آنے والا ایک امپورٹڈ نوا نکور صدر اسکندر مرزا ہے, یہیں کہیں فاطمہ جناح کا پنکھے سے جھولتا ہوا ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی ہے، اس میں ایوب خان ہے، یحییٰ خان ہے، قباحتوں کا دبستان ہے، آرزوؤں کے قبرستان ہیں اور اس سب کے ساتھ ایک عدد ٹوٹا ہوا پاکستان ہے….. بھٹو اور پیپلز پارٹی کا بنایا ہوا آئین ان تمام زخموں کا مرہم ہے یہ آئین افواجِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان دونوں کی حرمت کا بیک وقت ضامن ہے، یہی آئین ہے جو صدرِ پاکستان اور ایک عام شہری کو ایک جیسے حقوق کی واحد یقین دہانی ہے اور یہی بات اس کو مقدم بناتی ہے.
تقریباً تاریخ نے اپنے آپ کو اسی طرح دوہرایا کہ جب آمریتوں کے گہرے سائیوں میں آصف زرداری کے ایک جملے نے دراڑ ڈالی کہ
We will impeach general Musharaf
تو کمانڈر کی کانپیں ٹانگیں اور وہ خود کو راحیل شریف اور پاکستان کو اللہ کے حوالے کر کے ملکی وسیع تر مفاد میں ہمیشہ کے لیے دبئی واصل ہو گیا، ملک میں ایک ایسی پارٹی کی حکومت تھی کہ جس کی لیڈر کو سڑک پر مار دیا گیا تھا، ایسے میں آصف زرداری نے میاں رضا ربانی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اٹھارویں ترمیم کی ایک دستاویز بنی بھٹو کے پاکستان کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال ہوا ایوانِ صدر کی بدمعاشی ختم ہوئی ،صوبوں کو انکے اختیارات ملے انکا بجٹ ملا اور ایک ایسا کام ہوا کہ جو آج بچے جموروں کے سر کا درد بن چکا ہے ، انہیں کبھی اٹھارویں ترمیم ڈراتی ہے تو کبھی صوبائی خودمختاری چبھتی ہے تو کبھی آصف علی زرداری….
2013 کے بعد سے پاکستان میں جو بھی سیاسی گیم ہے اس کا سب سے بڑا کھلاڑی آصف زرداری ہے، جب میاں نواز شریف کو حکومت ملی تو عمران خان سڑکوں پر آ گئے، میاں صاحب چائے کی پیالی کے طوفان سے اتنا گھبرائے کہ رائیونڈ محل میں بھنڈیوں کی دعوت ہوئی، آصف زرداری کے بھنڈیاں کھائیں اور ایک آدھ دن بعد اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں دو تقریریں کیں بظاہر وہ تقاریر چوہدری نثار کا بندوبست معلوم ہورہی تھیں لیکن جہاں ایک طرف میاں نواز شریف کو چوہدری نثار کی اصلیت سے آگاہ کیا گیا وہیں دوسری طرف عمران خان کا دھرنا بھی پنکچر کر دیا گیا, دھرنا اور اسکے شرکاء کسی امپائر کی انگلی کی تلاش میں تھے اور غیر آئینی طریقے سے میاں صاحب کو رخصت کرنا چاہتے تھے لہٰذا اس عمل کے خلاف آصف زرداری نے میاں صاحب کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا، خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ پانامہ کیس نمودار ہوا آصف زرداری نے میاں صاحب کو کہا کہ اس کو پارلیمنٹ میں لے آئیں لیکن میاں صاحب عدالت گئے اور یہ پوچھتے ہوئے باہر نکلے کہ مجھے کیوں نکالا؟؟؟
آصف زرداری نے کہا کہ نیب کو ختم کر دیں یہ سیاستدانوں سے انتقام لینے کے لیے بنایا گیا تھا میاں صاحب کی آنکھیں چمکیں اور انہوں نے سوچا کہ اگر ایسا ہی ہے تو وہ پھندا جو آصف زرداری کی گردن پکڑ سکے وہ بھی نیب کی کسی عمارت سے ملے گا، لیکن وہ پھندا آخر کار عمران خان کے ہاتھ لگا اور میاں صاحب کو بچانے کے لیے قطری جہاز کو آنا پڑا….
عمران خان کی حکومت سے جان چھڑانے کے لیے ایک متحدہ اپوزیشن کا اتحاد بنا اس کا نام بلاول بھٹو نے PDM پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا پہلا اختلاف یہ ہوا کہ مولانا عمران خان اور باجوہ صاحب کے خلاف یہودی اور قادیانی کارڈ کھیلنا چاہتے تھے جو بلاول کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں تھا، استعفوں پر اختلاف ہوا اور مولانا اور ن لیگ نے اسٌ پیپلز پارٹی کو PDM سے نکال دیا جو بنائی ہی پیپلز پارٹی نے تھی، پیپلز پارٹی نے اپنے الگ احتجاج کا اعلان کیا بلاول اور آصفہ بھٹو احتجاجی مارچ لیکر کراچی سے اسلام آباد پہنچے، ایک دن ٹی وی پر ہم نے دیکھا کہ ایک پریس کانفرنس میں آصف زرداری بیچ میں اور دائیں اور بائیں جانب مولانا اور شہباز شریف بیٹھے تھے اور اعلان یہ ہو رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی یہی بات آصف زرداری نے ایک سال پہلے کہی تھی ، یہ اعلان کیا ہوا کہ عمران خان کی بندوق کی نشست پر آصف زرداری آگیا، شاہ محمود اور علی زیدی سندھ بچانے سندھ چلے گئے اور باقی پی ٹی آئی کے ارکان اپنا سیاسی کیرئیر بچانے اسلام آباد کے سندھ ہاؤس، اس سب سے ذرا پہلے ایک دن بلاول نے عمران خان کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ شاہ محمود سے ہوشیار رہنا بالکل ویسے ہی جیسے 2014 میں اعتزاز احسن نے میاں صاحب کو چودہری نثار کے بارے میں بتایا تھا لیکن کیا فائدہ…
عدم اعتماد جمع ہوئی کچھ Love اور کچھ Hate Latter ادِھر ادٌھر ہوئے ہائیبرڈ سسٹم نے جب آئینی طریقے کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تو ملک آٹو پر چلا گیا اور ایک اسپیکر قومی اسمبلی تھپڑوں ، قیدیوں والی گاڑی اور نا اہلی سے بچتے بچاتے بنی گالہ پہنچا جہاں انقلاب سمیٹ کر رکھا گیا تھا اور یوں پہلی بار اس ملک میں کسی وزیر اعظم کو پارلیمان نے عین آئینی طریقے سے برطرف کر دیا….
یہ ایک کہانی ہے اس جدوجٌہد کی کہ جو اس ملک میں آئین کے لیے لڑی گئی جس میں نینانوے فیصد حصہ پیپلز پارٹی نے ڈالا ہے اور آج آصف علی زرداری ہے کہ جس کی گیم آن ہے باقی جو کچھ ہے وہ اسی طرح اینٹی زرداری ہے جیسے باقی تمام سیاسی جماعتیں جو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طاقتور نے پیپلز پارٹی کو گرانے کے لیے بنائی تھی…..
پاکستان کا سب سے بڑا بحران آئینی بحران ہے یہ بات جس طرح پیپلز پارٹی کو سمجھ آتی ہے وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو آج تک سمجھ نہیں آ پائی اسی لیے بھٹو نے حکومت حاصل کرتے ساتھ اپنی توجہ سب سے پہلے آئین سازی پر مرکوز کی تھی اعلیٰ ترین جمہوری دماغ ایک جگہ اکٹھا ہوئے اور ایک ایسی دستاویز تیار کی گئی کہ جس نے اس ریاست میں رہنے والے ہر مکتبہِ فکر کے لوگوں کو ایک آئین پر اتفاق کرنے کے لیے قائل کرلیا، اور آج آپ دیکھیے کہ مولانا فضل الرحمان سے لے کر میاں نواز شریف تک تحریکِ لبیک سے تحریکِ انصاف تک، ایم کیو ایم سے اے این پی تک، سپریم کورٹ سے لے کر پاکستان آرمی تک، منظورِ پشتیں سے شاہ زین بگٹی تک، زید حامد سے جبران ناصر تک، خلیل الرحمٰن قمر (جن سے عمران خان نے سیاسی حالتِ نزع میں مشورہ لیا) سے لے کر ماروی سرمد تک، اوریا مقبول جان سے مطیع اللہ جان تک ہر کوئی اسی آئین کو مقدم اور مقدس مانتا ہے… ایک دو وہ بھی ہیں کہ جن کو یہ آئین کاغذ کا چیتھڑا لگا لیکن آج وہ خود تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے لرز رہے ہیں ابھی چند روز قبل سنجے دت کو حسرت سے تکتے نظر آئے تھے ۔۔
یہ آئین ذوالفقار علی بھٹو اور اسکی پیپلز پارٹی کا کارنامہ ہے، یہ کارنامہ کوئی فلوک نہیں ہے، کسی اندھے کے ہاتھ آیا بٹیرا نہیں ہے، یہ آمریت کے مہیب سائیوں میں جلنے کی کڑہن ہے، یہ اسٌ خاموش جدو جہد کا ثمر ہے کہ جو پاکستان کی عوام نہ چاہتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے کہ وہ کسی جدو جٌہد کا حصہ ہیں 1949 سے کر رہے تھے اس جدو جٌہد کے بیشمار گم نام اور نامور باب ہیں جس میں نو سالوں میں سات وزراء اعظم کی تقریریاں اور معزولیاں ہیں، اسی میں کہیں راولپنڈی سازش کیس ہے، تو کہیں لیاقت علی خان کی لاش ہے، کہیں تحریکِ پاکستان کے عظیم رہمناؤں کی قرارداد مقاصد کے منظور ہوجانے پر گمبھیر خاموشی ہے، تو کہیں انہی جناح کے عظیم ساتھیوں پر غداری کے گونجتے الزام ہیں، یہیں کہیں 1956 میں آنے والا ایک امپورٹڈ نوا نکور صدر اسکندر مرزا ہے, یہیں کہیں فاطمہ جناح کا پنکھے سے جھولتا ہوا ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی ہے، اس میں ایوب خان ہے، یحییٰ خان ہے، قباحتوں کا دبستان ہے، آرزوؤں کے قبرستان ہیں اور اس سب کے ساتھ ایک عدد ٹوٹا ہوا پاکستان ہے….. بھٹو اور پیپلز پارٹی کا بنایا ہوا آئین ان تمام زخموں کا مرہم ہے یہ آئین افواجِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان دونوں کی حرمت کا بیک وقت ضامن ہے، یہی آئین ہے جو صدرِ پاکستان اور ایک عام شہری کو ایک جیسے حقوق کی واحد یقین دہانی ہے اور یہی بات اس کو مقدم بناتی ہے.
تقریباً تاریخ نے اپنے آپ کو اسی طرح دوہرایا کہ جب آمریتوں کے گہرے سائیوں میں آصف زرداری کے ایک جملے نے دراڑ ڈالی کہ
We will impeach general Musharaf
تو کمانڈر کی کانپیں ٹانگیں اور وہ خود کو راحیل شریف اور پاکستان کو اللہ کے حوالے کر کے ملکی وسیع تر مفاد میں ہمیشہ کے لیے دبئی واصل ہو گیا، ملک میں ایک ایسی پارٹی کی حکومت تھی کہ جس کی لیڈر کو سڑک پر مار دیا گیا تھا، ایسے میں آصف زرداری نے میاں رضا ربانی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اٹھارویں ترمیم کی ایک دستاویز بنی بھٹو کے پاکستان کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال ہوا ایوانِ صدر کی بدمعاشی ختم ہوئی ،صوبوں کو انکے اختیارات ملے انکا بجٹ ملا اور ایک ایسا کام ہوا کہ جو آج بچے جموروں کے سر کا درد بن چکا ہے ، انہیں کبھی اٹھارویں ترمیم ڈراتی ہے تو کبھی صوبائی خودمختاری چبھتی ہے تو کبھی آصف علی زرداری….
2013 کے بعد سے پاکستان میں جو بھی سیاسی گیم ہے اس کا سب سے بڑا کھلاڑی آصف زرداری ہے، جب میاں نواز شریف کو حکومت ملی تو عمران خان سڑکوں پر آ گئے، میاں صاحب چائے کی پیالی کے طوفان سے اتنا گھبرائے کہ رائیونڈ محل میں بھنڈیوں کی دعوت ہوئی، آصف زرداری کے بھنڈیاں کھائیں اور ایک آدھ دن بعد اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ میں دو تقریریں کیں بظاہر وہ تقاریر چوہدری نثار کا بندوبست معلوم ہورہی تھیں لیکن جہاں ایک طرف میاں نواز شریف کو چوہدری نثار کی اصلیت سے آگاہ کیا گیا وہیں دوسری طرف عمران خان کا دھرنا بھی پنکچر کر دیا گیا, دھرنا اور اسکے شرکاء کسی امپائر کی انگلی کی تلاش میں تھے اور غیر آئینی طریقے سے میاں صاحب کو رخصت کرنا چاہتے تھے لہٰذا اس عمل کے خلاف آصف زرداری نے میاں صاحب کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا، خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ پانامہ کیس نمودار ہوا آصف زرداری نے میاں صاحب کو کہا کہ اس کو پارلیمنٹ میں لے آئیں لیکن میاں صاحب عدالت گئے اور یہ پوچھتے ہوئے باہر نکلے کہ مجھے کیوں نکالا؟؟؟
آصف زرداری نے کہا کہ نیب کو ختم کر دیں یہ سیاستدانوں سے انتقام لینے کے لیے بنایا گیا تھا میاں صاحب کی آنکھیں چمکیں اور انہوں نے سوچا کہ اگر ایسا ہی ہے تو وہ پھندا جو آصف زرداری کی گردن پکڑ سکے وہ بھی نیب کی کسی عمارت سے ملے گا، لیکن وہ پھندا آخر کار عمران خان کے ہاتھ لگا اور میاں صاحب کو بچانے کے لیے قطری جہاز کو آنا پڑا….
عمران خان کی حکومت سے جان چھڑانے کے لیے ایک متحدہ اپوزیشن کا اتحاد بنا اس کا نام بلاول بھٹو نے PDM پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا پہلا اختلاف یہ ہوا کہ مولانا عمران خان اور باجوہ صاحب کے خلاف یہودی اور قادیانی کارڈ کھیلنا چاہتے تھے جو بلاول کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں تھا، استعفوں پر اختلاف ہوا اور مولانا اور ن لیگ نے اسٌ پیپلز پارٹی کو PDM سے نکال دیا جو بنائی ہی پیپلز پارٹی نے تھی، پیپلز پارٹی نے اپنے الگ احتجاج کا اعلان کیا بلاول اور آصفہ بھٹو احتجاجی مارچ لیکر کراچی سے اسلام آباد پہنچے، ایک دن ٹی وی پر ہم نے دیکھا کہ ایک پریس کانفرنس میں آصف زرداری بیچ میں اور دائیں اور بائیں جانب مولانا اور شہباز شریف بیٹھے تھے اور اعلان یہ ہو رہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی یہی بات آصف زرداری نے ایک سال پہلے کہی تھی ، یہ اعلان کیا ہوا کہ عمران خان کی بندوق کی نشست پر آصف زرداری آگیا، شاہ محمود اور علی زیدی سندھ بچانے سندھ چلے گئے اور باقی پی ٹی آئی کے ارکان اپنا سیاسی کیرئیر بچانے اسلام آباد کے سندھ ہاؤس، اس سب سے ذرا پہلے ایک دن بلاول نے عمران خان کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ شاہ محمود سے ہوشیار رہنا بالکل ویسے ہی جیسے 2014 میں اعتزاز احسن نے میاں صاحب کو چودہری نثار کے بارے میں بتایا تھا لیکن کیا فائدہ…
عدم اعتماد جمع ہوئی کچھ Love اور کچھ Hate Latter ادِھر ادٌھر ہوئے ہائیبرڈ سسٹم نے جب آئینی طریقے کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تو ملک آٹو پر چلا گیا اور ایک اسپیکر قومی اسمبلی تھپڑوں ، قیدیوں والی گاڑی اور نا اہلی سے بچتے بچاتے بنی گالہ پہنچا جہاں انقلاب سمیٹ کر رکھا گیا تھا اور یوں پہلی بار اس ملک میں کسی وزیر اعظم کو پارلیمان نے عین آئینی طریقے سے برطرف کر دیا….
یہ ایک کہانی ہے اس جدوجٌہد کی کہ جو اس ملک میں آئین کے لیے لڑی گئی جس میں نینانوے فیصد حصہ پیپلز پارٹی نے ڈالا ہے اور آج آصف علی زرداری ہے کہ جس کی گیم آن ہے باقی جو کچھ ہے وہ اسی طرح اینٹی زرداری ہے جیسے باقی تمام سیاسی جماعتیں جو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طاقتور نے پیپلز پارٹی کو گرانے کے لیے بنائی تھی…..
فیس بک کمینٹ