اگرچہ بچوں کا سرطان نایاب ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ میں ایک سال سے بڑے بچوں میں یہ اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے. انیس سو ستر کی دہائی میں ایسے بچے جو سرطان سے بچ جاتے تھے ان میں سے 58 فیصد بچے صفر سے چودہ سال کے اور 68 فیصد پندرہ سے انیس سال کے تھے. 2008 سے 2014 کے درمیان جو بچے بچ جاتے تھے وہ 83.4 فیصد اور لڑکپن میں 84.6 فیصد تھے. 2018 میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ امریکہ میں صفر سے چودہ سال کی عمر کے 15590 بچوں کو سرطان ہوا جن میں سے 1780 بچے اس بیماری سے وفات پا گئے. لڑکپن میں 5000 بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوئی جن میں سے 600 بچے اس بیماری سے وفات پا گئے.
مجموعی طور پر بچپن آور لڑکپن میں سب سے عام سرطان خون کے اور اس کے بعد دماغ اور غدود کے یعنی لمفوما کے ہیں. بچوں کے باقی سرطانوں میں سارکوما، نیوروبلاسٹوما اور گروں کا سرطان شامل ہیں. لڑکپن کے سب سے عام سرطانوں میں دماغ کے اور غدود کے یعنی لمفوما شامل ہیں. ان کے علاوہ خون، جنسی اعضاء. تھائیراڈ یعنی گلے کے غدود اور میلانوما یعنی جلد کے سرطان وغیرہ ہیں.
جنوری 2015 تک امریکہ میں سرطان سے بچ جانے بچوں کی تعداد 429000 ہزار تھی. شماریات کے مطابق ایک طرف کینسر سے ٹھیک ہونے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف اس کا شکار ہونےوالوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے. پچھلے پچاس برسوں میں سب سے زیادہ بلڈ کینسر کے کامیاب علاج کی بدولت اس سے بچ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے. اس کے بعد نان ہاجکن لمفوما سے بچ جانے والوں کی تعداد بڑھی ہے.
زیادہ تر سرطانوں کے کامیاب علاج دریافت ہونے کے باوجود کچھ سرطان ایسے بھی ہیں جن کا کامیاب علاج یا تو بہت مشکل ہے یا ہے ہی نہیں. ان میں ایک دماغ کا کینسر پونٹائن گلایوما ہے جس کا شکار ہونے والے بچے ایک برس سے زہادہ زندہ نہیں رہتے. اس کے علاوہ بڑے بچوں میں ولمز ٹیومر، جو ایک گردوں کا سرطان ہے، کے علاج کے باوجود صختیاب ہونے کی شرح چھوٹے بچوں کی نسبت بے حد کم ہے. بچوں میں سارکوما اگر پھیلا ہوا ہو تو اس کے ٹھیک ہونے کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے. خون کے سرطان کے علاج کی کامیابی کی شرح 10 سال سے بڑے اور ایک سال سے چھوٹے بچوں میں کم ہے.
کینسر کے ہاتھوں بچوں کی ہر سال وفات کی شرح 1975 میں 100000 میں سے پانچ اور 2015 میں 100000 میں سے 2 تھی. علاج میں اس بہتری کے باوجود امریکہ میں ہر سال 1800 کینسر کے بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں.
(ڈاکٹرعلی شاذف/ماخذ این سی آئی)
فیس بک کمینٹ