اب بولنے سے پہلے تولنا ہوگا اور لکھنے سے پہلے ”جان کی امان“ طلب کرنا ہوگی کہ ہونٹ سل جانے والی باتیں اب زمانہ قدیم کی یاد دلائیں گی ۔ بات سچ ہے یا جھوٹ؟ لکھنے والا کس قدر صاحب بصیرت ہے؟ بولنے والے کی بات کتنی بلیغ ہے ؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا بس جو سرکار کے خلاف بولے گا اس کے ”لب اظہار پہ تالے ہوں گے“ جس طرح ماضی بعید میں تحقیق کرنے والے سکالرز کے سروں میں ان کی کتابوں کے مسودے اس طرح مارے گئے کہ مسودے بھی پھٹ گئے اور سکالرز بھی ”نذر تحقیق“ ہوگئے۔
کبھی روشنی دینے والوں کو اپنی آنکھیں دینا پڑگئیں اور کوئی سچ بولنے کی پاداش میں سولی چڑھا دیا گیا۔ اب سوشل میڈیا پر حکومت مخالف بات کرنے والوں کو ایک یا دو نہیں پورے31محکمے انپے اپنے طریقے سے ”لگام “ ڈالیں گے ۔ قابل اعتراض مواد کے خلاف کارروائی کےلئے پی ٹی اے کی آن لائن پورٹل تک 31وفاقی و صوبائی اداروں کو رسائی دے دی گئی جو فیس بک، انٹر نیٹ ، واٹس ایپ ، ٹیوٹر سے ناپسندید ہ مواد ہٹا سکیں گے۔ ہاں اگر حکومت مخالف فیصلے پر کسی جج صاحب کو گالیاں دی گئیں یا ان کے کارٹون بنائے گئے تو ایسی صورتحال میں شاید کارروائی میں خاص رعایت بھی مل سکتی ہے ۔
نفرت انگیز، توہین عدالت، گستاخانہ مواد ، پورنو گرافی اور ریاست مخالف 9لاکھ24ہزار 197 ویب سائٹس بلاک کردی گئیں۔ شہریوں کی شکایات کو وفاقی تحقیقاتی ادارہ دیکھے گا ۔ مناسب آزادی اظہار رائے اور غیر مناسب آزادی اظہار رائے کا فیصلہ کرنے والے کا معیار کیا ہوگا ۔ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے یا پھر نظریہ ضرورت کے تحت ان حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جن میں وہ تقریر یا تحریر ”سرزد“ ہوئی ہوگی۔
موجودہ حکومت کوہم اس فیصلے پر ” سرخ سلام“ پیش کرتے ہیں کہ سیاہ سلام بھی تو قابل جرم عمل قرار دیدیا گیا ہے اور شائد اب سلام و دعا کا سلسلہ بھی باقی نہ رہے کہ 31سرکاری محکموں کا سامنا کرنا بھلا کون پسند کرتا ہے؟ ہم سے تو صرف پنجاب پولیس کا محکمہ نہیں سنبھالا جارہا تھا ۔ اب ہم باجماعت 31سرکاری محکموں کی زد میں ہونگے۔
سوشل میڈیا پر بے ہودہ اور بے ہنگم تحریر و تقریر و تصویر کی روایت بھی تو ” انجمن نوجوانانِ انصاف“ نے ڈالی تھی کہ ”گالی اور تالی “ کے زور پر ہی تو ہم موجودہ ”امیر“ کو اقتدار میں لائے تھے تو اب وہی فصل کاٹتے ہوئے گھبرانے کی ضرورت کیا ہے جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بوئی تھی۔
خشک لکڑی کے ساتھ ساتھ گیلی جل جانے کا وقت بھی آیا چاہتا ہے کہ اس بات کی تعریف کون کرے گا کہ کون سی تقریر اور تحریر شر انگیز ، منفی اور نفرت پھیلانے والی ہے؟ یا پھر جو حاکم وقت کی طبیعت ناساز پر گراں گزرے وہی قابل تعزیر سمجھی جائے ۔ کسی حد تک یہی سمجھا جائے کہ اب ” پرامن احتجاج“ کی اجازت بھی چھن چکی ہے۔
اب آپ فون کرتے ہوئے مہنگائی ، بدامنی ، چوری و رہزنی کے خلاف بات کرنے سے 31محکموں کی زد میں آسکتے ہیں ۔ آپ کا بجلی کا بل اگر استعمال سے بہت زیادہ ہے تو واپڈا کے خلاف ہرزہ سرائی آپ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل سکتی ہے کیونکہ ان 31محکموں میں محکمہ واپڈا بھی آپ کےلئے ” منکر نکیر“ بن سکتا ہے۔
بنیادی حقوق سے وابستہ تنظیمیں شائد اس ”تالہ بندی“ پر پہلے ہی راضی کی جاچکی ہوں کہ انہوں نے بھی تو یہیں سے ”کھانا پینا “ ہوتا ہے اور یوں بھی وہ حاکم وقت سے اس عوام کی خاطر کوئی ”پنگا“ کیوں لیں جو خود اپنے حق کے لئے آواز بلند نہیں کرسکتے ۔
بہر حال اب روٹی روزی کے ساتھ ساتھ سوچ اور زبان کو قابو میں رکھنا بھی ضروری کاموں میں شامل ہوچکا ہے۔
آخر میں حضرت احمد ندیم قاسمی کی یہ نظم ”ایک درخواست“ پڑھیں اور حالات کو سمجھیں :۔
زندگی کے جتنے بھی دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا !حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا !اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے ، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندان ایوان عقائد
اے ہنر مندان آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے