کسی بھی سیاسی رہنما کو سیاسی اختلاف کا مکمل حق حاصل ہے۔مگر ایک ایسا شخص جو اس ملک کے اعلی ترین اور معتبر عہدے پہ براجمان ہو اسے کسی اور کی نہیں اپنے عہدے کی لاج ضرور رکھنی چاہیۓ اپنی عزت و تکریم کو برقرار رکھنا ہی آپ کو بڑا لیڈر بناتا ہے
آپ نے کس کو کہا ؟یہ سوال بے معنی ہے آپ نے ” صاحبہ ” لفظ کو ایک گالی کے طور پہ؛تضحیک اور تمسخر کے طور پہ ادا کیا جو انتہائ نا مناسب ہے ۔یعنی وزیر اعظم پاکستان اسقدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے کہ وہ گالی کے طور پہ مونث کا صیغہ استعمال کریگا اس ملک کی نصف آبادی کو ؛ایسے طبقہ کو جو پہلے ہی جہالت کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم ہے عزت و تکریم سے محروم ہے آپ اسے کیا پیغام دے رہے ہیں؟
آپ فیوڈل مائنڈ سیٹ اپ اور سٹیٹس کو کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔اس طبقے کی حوصلہ افزائ فرما رہے ہیں جو آۓ روز غریب کی بیٹی کو جنسی درندگی کے بعد قتل کر دیتے ہیں ننھی بچیوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے بعد ان کی لاشیں کوڑے کے ڈھیر پہ ڈال دیتے ہیں بجاۓ اس کے آپ اس مائنڈ سیٹ اپ کی حوصلہ شکنی کریں ان کیلیۓ سر عام پھانسی کی قانون سازی کریں ۔اور آپ کے ان اقدامات کو مدتوں یاد رکھا جاۓ گا۔دہشت گردوں کے مخالفت میں ؛مودی کی مخالفت میں بھی سلپ آف ٹنگ ہو دشمنوں اور دہشت گردوں کو للکار نے والا جملہ غلطی سے کہہ دیں ۔مگر ایسا نہ ہوا آپکی پارٹی ہو یا کسی بھی سیاسی پارٹی کی خواتین رہنما قابل احترام ہیں ۔آپ کے اس بیان سے سب کی دل آزاری ہوئ ہے اگر آپ ریاست مدینہ کے پیروکار ہیں تو اسکا عملی مظاہرہ بھی کریں ۔غلطی سے مسٹیک ہونا تو انسان کے بس میں نہیں مگر اس پہ معافی مانگنا تو آپ کے بس میں ہے ۔آپ کو اپنی قوم کی ماؤں بہنوں سے معافی مانگ کے اپنا وقار بلند کرنا چاہیۓ۔
فیس بک کمینٹ