اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وزیراعظم کے مداح گن گن کر ان غلطیوں کو یاد کروا رہے ہیں جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دور میں کی جاتی رہیں۔ اور بہت معصومیت سے پوچھا جا رہا ہے کہ اگر ان ادوار میں اس سے بڑی غلطیاں ہوئیں تو اب عمران خان کی آنکھ کے بال کو شہتیر بنا کر پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سادہ سوال کا جواب بھی بہت سادہ ہے۔ ماضی سبق سیکھنے اور غلطیاں دہرانے سے گریز کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسے اس استدلال کے لئے استعمال کرنا کہ فلاں نے یہ غلطی کی تھی، تو خان صاحب کیوں ویسی ہی غلطی نہیں کرسکتے، دراصل شکست خوردگی کی علامت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست میں جس بنیادی نکتہ کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے وہ بدستور جمہوریت کے تسلسل اور اعتبار سے متعلق ہے۔ ملک کے آئین اور عوام کی خواہشات کے مطابق انتظام کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ روز اول سے مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلے دور میں سول حکومتوں کو بے عمل ثابت کرتے ہوئے ان کے خلاف سازشیں کی جاتی رہیں۔ پھر کرپشن اور ناپسندیدہ جمہوری عمل کو فیصلہ کرنے والی قوت سے تبدیل کرنے کے نام پر ایوب خان کا مارشل لا نافذ کیا گیا۔
اس فوجی دور نے دس سال کی مختصر مدت میں قوم کو عدم استحکام، صوبوں کے درمیان بداعتمادی اور عوام کی خواہشات نظرانداز کرنے کی صورت میں جو تحائف دیے، پاکستان اب تک ان کی قیمت ادا کررہا ہے۔ لیکن عمران خان اور ان کے مٹھی بھر ساتھی اس دور کے محاسن گنوا کر جمہوریت پر اعتبار اور نظام کے تسلسل کے بارے میں اپنی بدنیتی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اس حکومت کے جمہوری رویہ پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
عمران خان ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں لیکن وہ ووٹروں کو احترام دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شاید اسی لئے وہ اپوزیشن کے اس الزام کی تصدیق کا سبب بن رہے ہیں کہ وہ الیکٹڈ نہیں بلکہ سیلیکٹڈ وزیراعظم ہیں۔ ان پر یہ پھبتی کسنے والے ویسے تو خود بھی ملک میں اسٹبلشمنٹ نواز یعنی اصل طاقت ور حلقوں کی تائید و ہمدردی حاصل کرکے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن محض اس وجہ سے یہ طریقہ عمران خان کے لئے جائز نہیں ہوجاتا کہ ماضی میں دوسری پارٹیوں نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے اصولوں پر سودے بازی کی تھی۔
عمران خان اپنی ذاتی دیانت کی بنیاد پر اقتدار تک پہنچ کر نظام میں دوررس اصلاحات کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے جب اسٹبلشمنٹ کے مخصوص ہتھکنڈوں یعنی الیکٹ ایبلز کے ذریعے وزیراعظم بننا قبول کیا تو خود ہی اس فرق کو ختم کردیا جو ان میں اور دوسرے سیاست دانوں میں ہونا چاہیے تھا۔
اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف پرجوش مہم چلائی ہے لیکن ان کی اپنی حکومت کسی بھی سابقہ لیڈر کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ کوئی مقدمہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ شاید موجودہ حکومت کی ترجیح بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ اب یہ تاثر یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ عمران خان کا بدعنوانی کے خلاف نعرہ دراصل مقبولیت کے چورن کا ایک اہم جزو ہے۔ اگر وہ واقعی بدعنوان نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو وہ افراد کو نشانہ بنانے کی بجائے نظام میں اصلاح کے لئے اقدامات کرتے لیکن آٹھ ماہ کے دوران ایسی کسی اصلاح کاکوئی اشارہ سامنے نہیں آیا ہے۔
اس کے علاوہ عمران خان اگر نواز شریف اور زرداری کی مخالفت محض ان کی بدعنوانی کی وجہ سے کرتے ہیں تو وہ اس اسٹبلشمنٹ کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے جو ان عناصر کو اقتدار میں لے کر آئی تھی۔ وہ ان تین فوجی ادوار میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات کروانے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بات کیوں نہیں کرتے جن کے دوران ملک سیاسی ہی نہیں معاشی لحاظ سے بھی خسارے میں رہا ہے۔ بدعنوانی کی بات کرنے والے لیڈر کے لئے سب سے اہم موضوع ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور میں امریکہ سے ملنے والی فوجی امداد کے بارے میں سوال اٹھانا ہونا چاہیے۔ صدر ٹرمپ نے اسی امداد کے حوالے سے پاکستانی لیڈروں پر دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان کی ہر نوع کی امداد بند کی ہے۔
عمران خان لیکن فوج کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے ہیں۔ البتہ اس تعاون کی بنیادی وجوہات پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ منتخب حکومت کو ملک کی پروفیشنل فوج کا محتاج ہوکر امور مملکت چلانے کا پابند ہونا چاہیے۔ اگر یہ طریقہ درست نہیں اور آئین کے خلاف ہے تو کیا وجہ ہے کہ بدعنوانی کا طوق کسی نہ کسی طرح منتخب ہوکر حکومت بنانے والے سیاست دانوں کے گلے میں تو ڈالا جاتاہے لیکن ان فوجی حکمرانوں کی سیاسی و مالی بدعنوانی کی بات کرتے ہوئے ہر کسی کے پر جلتے ہیں جنہوں نے سیاست دانوں سے زیادہ مدت تک ملک پر غیر قانونی طور سے آمریت مسلط رکھی۔ لیکن وہ بدستور نیک نام ہیں۔
سیاسی مخالفین پر بدعنوانی کا الزام عام کرتے ہوئے جب ایسے جھوٹ کا سہارا لیا جائے گا کہ نواز شریف اور زرداری نے قرض لے کر اپنے بنک اکاؤنٹ بھر لئے لیکن اب ملک ان قرضوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے تو مٹھی بھر جذباتی ہمدردوں کے علاوہ کوئی ذی شعور اس دلیل کی اصابت کو قبول نہیں کرے گا۔ اس قسم کی افترا پردازی سے ان سیاست دانوں کے اصل جرائم کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور جوابدہی کے عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آٹھ ماہ کی مدت میں اوسطا ً نواز اور زرداری ادوار سے زیادہ قرضے لئے ہیں۔ تو یہ بھی بتا دیا جائے یہ رقم کن اکاؤنٹس میں منتقل ہورہی ہے کیوں کہ کل حکومت نہ ہونے کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر بھی یہی الزام لگنے والے ہیں۔
یا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملک کے عمومی مالی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کوئی بھی حکومت قرض لئے بغیر کام نہیں چلا سکتی لیکن سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے معاشی ترجیحات درست کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کرتی۔ اس کی واضح مثال نواز شریف کے سابقہ دور میں انرجی سیکٹر کا پانچ سو ارب روپے گردشی قرضہ واپس کرنے کا اعلان تھا۔ حالانکہ حکومت کے پاس اس مقصد کے لئے مالی بنیاد موجود نہیں تھی۔ اس لئے جب اس پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ قرضہ ایک ہزار ارب روپے کی حد بھی عبور کرچکا تھا۔
اب عمران حکومت بھی ایسے ہی مقبول فیصلے کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس نے نعرے بازی کی سیاست اور ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے فیصلے کیے ہیں جن کا براہ راست بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور منڈی میں بے یقینی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس مالی بحران کا سامنا ہے وہ ماضی کی غلطیوں سے زیادہ گزشتہ آٹھ ماہ کی بے اعتدالی اور بدانتظامی ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی جا رہی۔
کابینہ میں تبدیلیوں کے فیصلہ پر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والوں کو کرپشن کے حامی اور ملک دشمن قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ عمران خان کو یہ بتانا چاہیے کہ ان کی پارٹی میں دھڑے بندی پر ان کا کتنا کنٹرول ہے یا یہ کہ انہیں بحران پر قابو پانے کے لئے ایسے غیر منتخب لوگوں پر کیوں بھروسہ کرنا پڑا جن کی تحریک انصاف کے ساتھ کوئی جذباتی یا اصولی وابستگی نہیں ہے۔ یہ لوگ عام طور سے اسٹبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں۔
جب عمران خان ایسے عناصر پر بھروسہ کریں گے تو یہ افواہیں بھی عام ہوں گی کہ حکومت پر عمران خان کا نہیں اس مقتدرہ کا کنٹرول ہے جو اس حکومت کو پہلے بالواسطہ طور سے چلارہی تھی لیکن آٹھ ماہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب اس نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے معاملات کو براہ راست سنبھال لیا ہے۔ اور عمران خان بے اختیار وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
ان سوالوں پر ناراض ہونے یا اپنے فیصلوں کی ماضی کے حکمرانوں کے اقدامات سے دلیل لانے کی بجائے یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ قیاس آرائیاں غلط ہیں۔ اس مقصد کے لئے قبائلی علاقے کا جلسہ نہیں پارلیمنٹ کا فلور سب سے مناسب پلیٹ فارم ہے۔ البتہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے آئینی انتظام اور طریقہ کار کے بارے میں جو طرز عمل اختیار کیا ہے اس سے یہ یقین پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ حکمران ٹولہ آئین کی موجودہ شکل کو قبول نہیں کرتا۔ اور نہ ہی پارلیمنٹ کا احترام مقصود ہے۔ بلکہ اسے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف شریف اور زرادری خاندان پر الزامات کی توپیں کھولتے ہوئے ماضی قریب میں آئین شکنی کے مرتکب اور سیاسی و مالی بدعنوانی کا سبب بننے والے پرویز مشرف کے بارے میں پراسرار انداز میں خاموش ہے۔ اصغر خان کیس کو انجام تک پہنچانے اور اس میں ملوث فوجی افسروں کو سزا دلوانے میں بھی فوج کی عزت اور طریقہ کو ڈھال بنا لیا جاتا ہے۔ اور اب حال ہی میں فیض آباد کیس کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسی کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے بھی حکمران پارٹی کے جمہوری روایت پر یقین کے بارے سنگین شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
ان کمزوریوں کی نشان دہی کرنے والے اس ملک کی منتخب حکومت کو با اختیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے آئین کی سربلندی کی بات کرتے ہوئے غیر منتخب اداروں کی حکومت پر بالادستی کے خلاف آواز اٹھانے والے تحریک انصاف کے حق حکمرانی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر چاہتے ہیں کہ آئینی و جمہوری طور سے منتخب حکومت کو کوئی ادارہ کنٹرول کرنے کا حوصلہ نہ کرے۔ نواز شریف کے خلاف ڈان لیکس یا پاناما کیس کے پنڈورا بکس کی مخالفت میں بھی یہی اصول کارفرما تھا۔ اب بھی جب منتخب حکومت کا بازو مروڑا جارہا ہے تو وہی عناصر متنبہ کررہے ہیں۔
نواز شریف نے بھی اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ووٹ کو عزت دینے اور اداروں کی مداخلت کے خلاف بات کی تھی۔ کیا عمران خان بھی اس وقت کا انتظار کریں گے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ ملک اب بار بار ایک ہی قسم کے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر عمران خان یہ بات سمجھ لیں تو ان کی حکومت مضبوط بھی ہو سکتی ہے اور وہ واقعی ایک بڑے لیڈر کے طور پر تاریخ میں اپنا نام بھی رقم کروا سکتے ہیں۔ اگر وہ اور ان کے حامی حکومت کی کمزوریوں پر نکتہ چینی کرنے والوں کو اپنا دشمن سمجھتے رہیں گے تو وہ اس بصیرت سے محروم رہیں گے جو ملک کو جمہوریت کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے درکار ہے۔
ایک بات البتہ واضح ہے کل جو لوگ نواز شریف کے خلاف ریاستی سازشوں پر سینہ کوبی کرتے تھے، عمران خان کی حکومت کو کمزور کرنے کے خلاف بھی وہی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نواز شریف تین دہائیاں اقتدار میں رہ کر ان قوتوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کرچکے تھے۔ عمران خان اس کوچہ کے نووارد ہیں، اس لئے جمہوریت کی باتوں میں انہیں اپنی نجات نہیں، بدعنوانی کی فتح دکھائی دیتی ہے۔
یہی تحریک انصاف اور عمران خان کا المیہ ہے۔ اور اگر وہ نوشتہ دیوار پڑھ کراصلاح احوال نہیں کریں گے تو اپنے علاوہ ملک و قوم کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث ہوں گے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ