ڈاکٹر ڈھکن قربانی دینے کا ارادہ تو ہر عید پر کرتے تھے لیکن پھر خود ہی قربانی نہ دینے کا کوئی معقول جواز بھی تلاش کر لیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مالدار ہونے کے باوجود مقروض ہوں۔ بہت سے دوستوں کی محبتوں کا قرض مجھے چکانا ہے اس لیے پہلے یہ قرض چکا لوں پھر قربانی دوں گا۔
افسوس کہ یہ قرض وہ کبھی نہ چکا سکے۔وہ ہر سال محلے والوں کے ذبح کیے ہوئے بکروں کا گوشت ثواب سمجھ کر کھاتے۔ ایک دو کھالیں بھی کہیں سے مل جاتیں اور ڈاکٹر صاحب لوگوں سے مانگی ہوئی کھالیں اپنی طرف سے کسی خیراتی ادارے کو دے آتے۔ وہ محلے میں مستحق اور محلے سے باہر مخیر مشہور تھے۔ گزشتہ برس ڈاکٹر ڈھکن نے بیگم کے پر زور اصرار پر ایک عدد بکرا حاصل کیا۔ ان کے بچوں کو بھی بکرا گھر میں رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ کہتے تھے ہم نے جب سے ہوش سنبھالا گھر میں بکرا نہیں دیکھا، بس آپ ہی نظر آتے ہیں۔ بکرا بھی انہیں مفت مل گیا۔ ایک میڈیکل ریپ ہر ماہ ڈاکٹر صاحب کے گھر کے یوٹیلٹی بل ادا کرتا تھا اس کمپنی نے عید پر ڈاکٹروں کے لیے بکرا سکیم شروع کی۔ اس کے عوض ڈاکٹر ڈھکن کو محلے کے مریضوں میں ہاضمے کا ایک ناقص سیرپ متعارف کرانا تھا۔ میڈیکل ریپ عید سے دو ہفتے قبل ڈاکٹر صاحب کے گھر بکرا چھوڑ گیا۔ بڑا خوبصورت اور وجیہہ و شکیل بکراتھا۔ بڑے بڑے سینگ، سینگوں سے بڑے کان، سیاہ رنگت، سرخ آنکھیں، گرجدار آواز، بکرے اور ڈاکٹر ڈھکن میں بہت سی باتیں مشترک تھیں۔ بکرے کی طرح ڈاکٹر صاحب کا رنگ بھی سیاہ، قدر درمیانہ اور آواز گرجدار تھی۔ بکرے کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی ساگ بہت شوق سے کھاتے تھے اور بھنے ہوئے چنے تو دونوں کی مرغوب غذا تھی۔
شروع شروع میں تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے چاؤ کے ساتھ بکرے کو صحن میں باندھامگر چند ہی روز بعد وہ اسے باہر گلی میں لے آئے۔ کہنے لگے صحن میں یہ بہت شور مچاتا ہے۔ بچوں اور بیگم کو بھی اعتراض تھا کہ بکرا سوتے میں خراٹے لیتا ہے۔ وہ تو پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کے خراٹوں سے تنگ تھے۔ ڈاکٹرصاحب کو تو گلی میں نہیں باندھا جا سکتا تھا سو سارا غصہ بے زبان بکرے پر ہی نکالا گیا۔ گلی میں آ کر بکرے نے ہر آنے جانے والے کے ساتھ اٹکھیلیاں شروع کر دیں۔ ایک روز میر صاحب کو موٹرسائیکل سمیت سینگوں پر اٹھایا۔ اگلے روز شریف حلوائی گلاب جامنوں کا تھال لے کر قریب سے گزرا تو بکرے نے کوئی شرارت کر دی۔ شام کو بچے بکرے کے سینگوں پر غبارے باندھ کراسے واک پر لے گئے۔ راستے میں ایک اور بکرے کی آواز سن کر اس نے رسہ چھڑایا اور ایک گھر میں جا گھسا۔ محلے کے چند شرفا وفد کی صورت میں ڈاکٹر ڈھکن کے کلینک پر جا پہنچے اور بکرے کے بارے میں شکایتوں کے انبار لگا دیے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا آپ فکر نہ کریں میں بکرے کو سمجھاؤں گا اور اگر باز نہ بھی آیا تو بھی فکر کی بات نہیں چند روز کا تو مہمان ہے،قربانی کاجانور ہے اسے برداشت کرنے کا بھی اجر ملے گا۔ محلے والے خاموش ہو گئے مگر بکرے کی کارستانیاں بدستور جاری رہیں۔ ایسا شریر بکرا کہ آنے جانے والوں کو ٹکر مارنے کے بعد باقاعدہ مسکراتا بھی تھا۔
عید کا چاند نظر آیا تو ڈاکٹر صاحب نے ایک ایک دن گننا شروع کر دیا۔ وہی بکرا جس کے ساتھ انہوں نے بہت چاؤ کے ساتھ تصویر بنوا کر اخبارات کو بھیجی تھی اب انہیں ایک آنکھ نہ بھاتا۔ غصہ اتنا زیادہ کہ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بچوں سے کہا کہ فکر نہ کرو بس اب دو چار دن کی بات ہے تم دیکھنا میں عید کے روز اسے مریض سمجھ کر ذبح کروں گا۔ ادھر محلے والوں نے بھی طرح طرح کی باتیں شروع کر دیں۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب بکرے کو سیر کرا رہے تھے کہ ایک محلے دار نے صاف کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب بکرا تو آپ نے خوب نہلایا اگرخود بھی نہا لیتے تو کیا حرج تھا؟ قریب ہی ایک ستم ظریف کھڑا تھا کہنے لگا نہ بھائی سردی بہت زیادہ ہے ڈاکٹر صاحب اس موسم میں اگر ایک بار خود نہائیں گے تو دوسری بار انہیں نہلانے کے لیے غسال کو بلوانا پڑے گااور وہ بھی کابل سے۔
ایسی دل آزار گفتگو سننے کے بعد ڈاکٹر صاحب فوراً گھر واپس آئے، بازار سے مرچیں منگوائیں دو بکرے کے سینگوں سے واریں دو اپنی بیگم کو دیں جو انہوں نے ڈاکٹر صاحب اور پھر بکرے کے سر سے وار کر چولہے میں پھینک دیں۔
اسی رات پہلے ڈاکٹر اور پھر ان کے بکرے کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے خود تو ہاضمے کا ناقص سیرپ نہ پیا مگر بکرے کو پلانے کی کوشش ضرور کی۔ بکرا بھی سمجھدار تھا اس نے سیرپ پینے سے انکار کر دیا۔ آخر کار سوڈے کی بوتل سے بکرے کی طبیعت سنبھل گئی۔ اگلے روز ڈاکٹر صاحب بازار سے کالی مہندی خرید لائے۔ آدھی اپنے لیے رکھی باقی بچوں کو دی کہ وہ اس سے بکرے کے پیٹ پر عید مبارک لکھ دیں۔ بچے سارا دن کوشش کرتے رہے مگر کالے بکرے کے پیٹ پر کالی مہندی سے بھلا عید مبارک کیسے لکھا جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے سر کے بال بہر حال کالے ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم نے اسی خوشی میں ان کے لیے دال پکائی اور وہی دال پکائے بغیر بکرے کو کھلا دی۔ بکرا نا سمجھ تھا دال کھانے کے بعد زیادہ پانی پی گیا۔ شام تک ڈاکٹر صاحب کو بکرا ذبح کرنا پڑ گیا۔ اس روز ڈاکٹر صاحب نے تہیہ کر لیا کہ اب وہ بھی کبھی دال نہیں کھائیں گے۔ کہتے ہیں میری بیگم نے بکرے کا انجام دیکھ لیا ہے اب وہ مجھے بھی دال کھلانے کے بعد پانی پلانے کی کوشش ضرور کرے گی۔ بکرا تو ذبح ہو گیا مگر عید کے روز ڈاکٹر ڈھکن کے گھر کے باہر پھوڑی بچھی رہی۔ ڈاکٹر صاحب ہر آنے والے کو ایک ہی شعر سناتے تھے:
بکراتودوستو مرے گھر کاہی فردتھا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
فیس بک کمینٹ