قبرستان حسن پروانہ کے درمیان جو راستہ کبھی ملتانیوں نے بوہڑ گیٹ جانے کے لئے بنایا تھا اور جس کے دونوں جانب موجود قبرستان اب تجاوزات سے بھرا ہوا ہے ۔اور وہ سڑک یوں محسوس ہوتی ہے جیسے کسی نے قبروں کے درمیان راستہ بچھا دیا ہو۔ اسی سڑک پر ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے باہر دبستانِ فروغِ خطاطی کا بورڈ آویزاں تھا اور اس دکان میں ایک سَچا ملتانی سر جھکائے قلم اور دوات کے ساتھ لفظوں کو روشن کرتا تھا۔ اور وہ ایک سَچا ملتانی تھا۔ ایک اچھا ملتانی تھا۔ اور سچے ملتانیوں اور اچھے ملتانیوں کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ تعصب نہیں رکھتے۔وہ نعرے نہیں لگاتے۔ وہ غیبت نہیں کرتے۔ حسد نہیں کرتے۔نمود ونمائش سے دور رہتے ہیں۔ صلے کی پرواہ نہیں کرتے۔ معاشرے میں خیر تقسیم کرتے ہیں۔ محبت تقسیم کرتے ہیں اور وہ مٹھاس تقسیم کرتے ہیں جو ملتان کی دھرتی کی پہچان ہے اور جو ہم ملتانی یہ سمجھتے ہیں کہ اس شہر کے آموں اور سوہن حلوے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کے لہجے میں آئی ہے۔ سو دبستانِ فروغِ خطاطی میں جو ملتانی سر جھکا کر دن بھر اپنے کام میں مگن رہتا تھا اس کا اصل نام تو اقبال خان تھا لیکن اس کا اصل نام کون جانتا تھا۔ کہ اقبال خان نے اپنی پہچان خطاطی بنائی اور ابنِ کلیم کے نام سے دنیا بھر میں ملتان اور پاکستان کی پہچان بنے۔ وہ خطاطی کے ساتھ ساتھ شعر وادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بھی سرگرم رہتے تھے۔ بے شمار خوبیاں تھیں ان میں۔ وہ ایک روایتی ملتانی تھے ۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ۔کینوس کے ساتھ ساتھ قرطاس و قلم کے ساتھ بھی ان کی گہری وابستگی تھی ۔ اردو اور سرائیکی کی کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ شعر بھی کہتے تھے لیکن اپنی پہچان شاعری کو نہیں خطاطی کو ہی سمجھتے تھے۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے ملتان میں فن خطاطی کی تر ویج کیلئے سرگرم تھے۔ حسن پروانہ روڈ پر پل شوالہ کے قریب جس دفتر کو انہوں نے عمر بھر فروغ خطاطی کا دبستان بنائے رکھا وہاں کتابیں بھی شائع ہوتی تھیں اور نئے لوگوں کو فنِ خطاطی کے اسرار ورموز سے بھی آگاہ کیا جاتا تھا۔ ابنِ کلیم نے نہ صرف یہ کہ اس فن کے مروجہ اصول وضوابط میں کام کیا بلکہ ایک نیا خط بھی ایجاد کیا جسے ڈاکٹر اسلم انصاری نے اس کی رعنائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خطِ رعنا کا نام دیا اور اب یہ اسی نام سے دنیا بھر میں جانا جاتاہے۔ ابن کلیم 3 جنوری 1946ء کو ملتان کے علاقے قدیرآباد میں پیدا ہوئے۔ان کے والد حسن خان کلیم رقم اپنے عہد کے نامورخطاط تھے جنہیں تاج الدین زریں رقم نے احسن التحریر کے لقب سے نوازا تھا۔ ابن کلیم نے دینی علوم میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے آبائی فن کے ساتھ ہی وابستگی اختیار کی۔ ابتداء میں وہ مروجہ خطوط میں ہی کام کرتے رہے۔ 1974ء میں انہوں نے نیا خط ایجاد کیا۔ اس وقت تک خطاطی میں چھ مروجہ اور مقبول خط مستعمل تھے جن میں خطِ کوفی،خطِ ثلث،خطِ نسخ،خطِ رقعہ،خطِ دیوانی اور خطِ نستعلیق شامل ہیں۔ ابن کلیم نے خط رعنا کی بنیاد رکھی اور اس میں تمام مروجہ ضوابط کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے دائرے اور الف میں نئے تجربات کیے۔ صدیوں سے رائج خطوط کی موجودگی میں کوئی نیا تجربہ کرنا بہت حوصلے کا کام تھا۔ ابنِ کلیم میں اس تجربے کا حوصلہ بھی تھا اور انہیں یقین بھی تھا کہ ان کی کاوش کو ضرور پذیرائی ملے گی۔ یہ خط اپنی خوبصورتی کے حوالے سے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں مقبول ہوگیا۔ دبستان فروغ خطاطی 45 برس قبل ان کے والد نے قائم کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ابنِ کلیم نے اس دبستان کو مزید متحرک کیا۔ اس دبستان کے ذر یعے نہ صرف یہ کہ بہت سے نئے خطاط سامنے آئے بلکہ اس فن کے فروغ کیلئے بہت سی کتب اور قاعدے بھی شائع کیے گئے۔ابن کلیم کے فن پاروں کی پاکستان سمیت مختلف ممالک میں متعدد نمائشیں ہوئیں۔ بھارت، سعودی عرب، ایران، سویڈن، ڈنمارک، دمشق، اٹلی، امریکا، برطانیہ اور استنبول میں ان کے فن پاروں کی بھر پور پذیرائی ہوئی۔ ابن کلیم کی 31 سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے 8 فن خطاطی سے متعلق ہیں۔ 8 کتابیں سرائیکی ادب کے مختلف موضوعات پر تحریر کی گئیں جبکہ باقی کتب میں مختلف سفرنامے اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتب میں ’’ مرقع رعنائی‘‘، ’’قلم اور اہلِ قلم‘‘، ’’جلوتِ رعنائے خطاطی‘‘، ’’تاریخِ فنِ خطاطی‘‘ ، ’’دہلی یاترا‘‘، ’’سفرِطیبہ‘‘، ’’گلہائے عقیدت‘‘، ’’سچا رنگ تصوف والا‘‘، ’’تریخ نامہ‘‘ ، ’’منظوم تاریخِ ملتان‘‘ اور دیگر کتب شامل ہیں۔ موضوعات کا یہ تنوع ہی ان کی ہمہ جہت شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ ابن کلیم کا کہنا تھا کہ اگرچہ کمپیوٹر آنے سے خطاطی کے فن کو نقصان پہنچا ہے لیکن اگر جذبے سچے ہوں اورجنون ہو تو کوئی بھی ایجاد کسی فن کو متاثر نہیں کر سکتی۔انہوں نے کہا کہ میں خطاطی کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔ اس فن کو سب سے زیادہ فروغ مساجد اور مزارات نے دیا اور مجھے یقین ہے کہ کمپیوٹر کا زمانہ بھی اس فن کے فروغ میں معاون ثابت ہو گا۔ وہ رجائی انداز فکر رکھتے تھے ۔ ابنِ کلیم کو اپنے والد سے جو ہنر ورثے میں ملا انہوں نے اسے اپنے بعد کی نسل کو منتقل کر دیا۔ اپنے بیٹوں کو انہوں نے فنِ خطاطی کی تربیت دی اور اب ان کے بیٹے اس فن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے محمد مختار علی کا شمار نئی نسل کے معروف شعراء میں ہوتا ہے ۔ مختار علی نے شاعری کے ساتھ ساتھ خطاطی اور آرٹ کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا ۔ 12 مارچ 2017ء کو ابنِ کلیم نے رختِ سفر باندھا تو جی پی او گراؤنڈ ملتان زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک اچھا اور سچا ملتانی ہم سے جدا ہو رہا تھا ۔ایک ایسا شخص کہ جس نے زندگی کا ایک ایک لمحہ اس دھرتی اور اپنے فن کی خدمت میں گزار دیا۔جو تعصبات سے بالا تر ہو کر کام کرتا تھا اور اسی لئے تو وہ اچھا ملتانی تھا
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ