میری اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہر ماہ پورے پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی جریدے احباب بھجوا دیتے ہیں۔ جس سے بہت سا وقت اچھا گزر جاتا ہے۔ مَیں اکثر دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ جب بھی میری مطالعہ کی میز پر کوئی نئی کتاب اور نیا رسالہ آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے کچھ لمحے ان کے مطالعہ میں بہت اچھے گزریں گے۔ مجھے بڑی گاڑیاں، اچھے ہوٹل، مہنگے لباس، قیمتی گھڑیاں، بیش قیمت تحائف وغیرہ کبھی بھی متاثر نہیں کرتے۔ ان کی نسبت مجھے زیادہ کشش تو روز کے اخبار میں ہوتی ہے جو صبح سویرے میرے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ کاغذ کی خاص مہک، پرنٹنگ کی خوشبو، رنگ برنگی تصاویر میں پورے جہان کی خبریں اور پھر ہفتہ وار ایڈیشن و ادارتی صفحات کا مطالعہ صبح سویرے تازہ دم کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اگر آپ کا کوئی پیارا جب کوئی رسالہ یا کتاب بھجواتا ہے تو اس سے بڑھ کر مجھے پر اس کا کوئی احسان نہیں ہوتا۔ وہ کتاب، رسالہ جب تک مَیں پڑھتا ہوں تو مجھے نئے جہانوں سے آگاہی ملتی ہے۔ خوبصورت شاعری، دل آویز نثر اور اس کے علاوہ تحقیق و تنقید، خاکے، تراجم سب کچھ ہی تو مجھے پڑھنے کو ملتا ہے۔
یہ تمہید مَیں نے اس لیے باندھی کہ ایک زمانے میں ملتان میں ہمارے ایک مہربان مظہر سلیم مجوکہ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن میں غمِ روزگار کے حوالے سے وابستہ تھے۔ اچھی شاعری کے دیوانے تھے۔ ان کی لائبریری میں اُردو و پنجابی کے ہر اہم شاعر کی کتابیں موجود تھیں۔ اپنے محکمہ میں ترقی کرتے کرتے ایک دن معلوم ہوا کہ ان کا تبادلہ ملتان سے لاہور کر دیا گیا ہے۔ ملتان والوں نے ان کی کمی کو بہت محسوس کیا کہ وہ شاعری کے حوالے سے چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اظہر سلیم مجوکہ بھی لکھتے ہیں۔ اپنے کالم میں شاعری کا حوالہ بھی دیتے ہیں لیکن مظہر سلیم مجوکہ کے ذوقِ شاعری کے قریب بھی اظہر سلیم مجوکہ نہ گئے۔ اکثر مظہر سلیم مجوکہ مذاق میں اپنے بھائی اظہر سلیم کو کہتے ہیں کہ تم نے میری کتابوں سے استفادہ نہ کیا اور آخرکار شاعری کی ایک شاندار لائبریری ملتان سے لاہور منتقل ہو گئی۔ جب تک مظہر سلیم مجوکہ ملتان میں تھے ہر اہم ادبی تقریب میں دکھائی دیتے۔ سیّد قاسم محمود اور ستار طاہر مرحوم کے ساتھ دوستی اور عقیدت کا تعلق تھا۔ اُسی تعلق کو وہ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ خاص طور سیّد قاسم محمود سے اتنے متاثر ہوئے کہ مظہر سلیم مجوکہ نے چودہ برس قبل ماہنامہ بک ڈائجسٹ لاہور سے شائع کرنا شروع کیا۔ آغاز میں انہوں نے بک ڈائجسٹ کے ہر شمارے کو ایک کتاب کے طور پر شائع کیا۔ پھر ایک عرصہ تک بک ڈائجسٹ منظر سے غائب ہو گیا۔ اب چار ماہ سے مظہر سلیم مجوکہ نے دو ضخیم شمارے شائع کر کے احباب کو بھجوا دیئے تو مجھے خیال آیا کہ مظہر بھائی کے دونوں تازہ شمارے اپنے اندر اتنے نئے موضوعات لیے ہوئے ہیں تو کیوں نہ بک ڈائجسٹ کے بارے میں قارئین کو بھی مطلع کریں کہ وہ بھی اپنے گھر کے کتابوں کے اثاثے کو منفرد بنائیں بک ڈائجسٹ کو گھر لائیں جو کتاب ورثہ غزنلی سٹریٹ اُردو بازار لاہور سے دستیاب ہے۔
ابھی ہم بک ڈائجسٹ کے مطالعہ سے فارغ ہوئے تھے کہ برادر من صفدر حسین (الحمد پبلی کیشنز لاہور) کی طرف سے سہ ماہی ادبی کتابی سلسلہ کی پہلی کتاب موصول ہوئی۔ اس کا نام مجلس ادارت کے ڈاکٹر امجد طفیل، ریاظ احمد اور عقیل اختر نے مل کر ”استعارہ“ رکھا ہے۔ اس شمارہ میں تادیر پڑھنے والی چیزوں میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا پینل انٹرویو، عبیرہ احمد و علی اصغر عباس کی شاعری، محمد عامر رانا کے ناول کا ایک باب، ڈاکٹر مجاہد کامران کی آپ بیتی کا کچھ حصہ، عرفان جاوید کا خالد حسن پر خاکہ اور عبداللہ۔ استعارہ چونکہ ایک اشاعتی ادارے کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اس لیے سرورق سے لے کر کاغذ اور تزئین و آرائش بھی دیدہ زیب ہے۔ 288 صفحات کا یہ شمارہ رانا چیمبرز چوک پرانی انارکلی لیک روڈ سے صرف چار سو روپے میں دستیاب ہے۔
معروف نعت خواں و نعت گو سرور حسین نقشبندی لاہور سے سہ ماہی ”مدحت“ بڑی باقاعدگی سے شائع کر رہے ہیں۔ جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ یہ کتابی سلسلہ حمد و نعت کی ترویج کے لیے مختص ہے۔ سرور حسین نقشبندی خود بہت ہی منفرد نعت گو شاعر ہیں۔ سو اس لیے ان کی نگرانی میں سہ ماہی ”مدحت“ بھی ہر نئے شمارے میں حمد و نعت کے علاوہ کسی نہ کسی شخصیت پر گوشہ بھی شامل کرتے ہیں۔ تازہ شمارے میں مولانا حضرت حسن رضا خاں کی نعت پر خصوصی مطالعہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ مدحت میں 29 حمدیں اور 71 نعتیں شامل کی گئی ہیں۔ مدحت کا ہر صفحہ عقیدت و مودت حضرت محمد مصطفےٰ سے لبریز ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مدحت کا یہ شمارہ آپ کے گھر کی زینت بنے تو طہٰ پبلی کیشنز اُردو بازار لاہور سے صرف 200 روپے میں منگوایا جا سکتا ہے۔
لاہور سے جناب عمران منظور پاکستان میں سب سے زیادہ شائع ہونے والا ادبی جریدہ ماہنامہ بیاض ہر ماہ کی یکم کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ کبھی یہ شمارہ اپنے پڑھنے والوں کے پاس دو تاریخ کو نہیں پہنچتا۔ اتنی باقاعدگی سے ادبی جریدہ شائع کرنا عمران منظور کا ایک ایسا کارنامہ ہے کہ جس پر ان کی تحسین کرنا تو الگ بات ہے ان کی خدمات کا حکومت کو بھی اعتراف کرنا چاہیے خاص طور پر ان کی طرف سے ہر سال خالد احمد ایوارڈ کے نام پر لاکھوں روپے کی تقسیم ایک ایسا کارنام ہے جس کی تقلید ہر ادب دوست کو کرنی چاہیے۔ ماہنامہ بیاض کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر لکھنے والے کی تخلیق کے ساتھ تصویر بھی شائع کی جاتی ہے جس سے تخلیق کار سے آدھی کی بجائے پوری ملاقات ہو جاتی ہے۔ خالد احمد کی یاد میں شائع کیے جانے والے اس ماہنامہ کو صرف سو روپے میں سیّد اطہر شہید روڈ 16 کلومیٹر ملتان روڈ لاہور سے خریدا جا سکتا ہے۔
معروف شاعر، ادیب، سفرنامہ اور کالم نگار عامر بن علی لاہور سے ماہنامہ ”ارژنگ“ بھی مدیر حسن عباسی کی مشاورت سے شائع کرتے ہیں۔ ”ارژنگ“ کو ادب کے آسمان پر چمکتے ہوئے 19 برس ہو گئے۔ ارژنگ کا ظہور بھی لاہور سے ہوتا ہے۔ انٹرویو، شاعری، مضامین، افسانے اور دیگر سلسلوں کی وجہ سے یہ ماہنامہ بھی پوری دنیا میں بھی بڑی محبت سے پڑھا جاتا ہے۔ بڑے سائز کے اس معیاری جریدہ کو اگر آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو F-3، الفیروز سنٹر، غزنی سٹریٹ اُردو بازار لاہور سے خط لکھ کر منگوایا جا سکتا ہے۔
چند دن قبل معروف ادیب، نقاد، ادیب اور شاعر سیّد عقیل عباس جعفری کا کراچی سے فون آیا کہ آپ کا ڈاک کا پتہ کیا ہے؟ ہم نے خوش ہو کر انہیں پتہ لکھوایا اس کے بعد عقیل بھائی سے پتہ منگوانے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے آپ کو تو معلوم ہے کہ مَیں آج کل اُردو لغت بورڈ کراچی کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ یہاں آ کر پتہ چلا کہ اُردو لغت بورڈ کا ایک کتابی سلسلہ ”اُردو نامہ“ بھی کبھی شائع ہوا کرتا تھا۔ جس کا پہلا شمارہ اگست 1960ءمیں شائع ہوا۔ یہ جریدہ اپریل 1977ءتک شائع ہوا جس میں صرف لغات اور لسانیات کے مباحث ہی شائع نہیں ہوتے بلکہ اس میں ڈپٹی نذیر احمد کی سگی نواسی قیصری بیگم کی سوانح عمری ”کتابِ زندگی“ کی 24 اقساط، علامہ عبدالعزیز میمن کی تقاریر ”افادیت میمنی“ کی 10 اقساط، مرزا ہادی رسوا کی دو مثنویاں ”اُمید و بیم“ اور ”نوبہار“ بھی شائع ہوئیں۔ اُردو نامہ کے شمارہ7 (مارچ 1962) سے اُردو لغت کا مسودہ بھی قسط وار شائع ہونے لگا۔ یہ سلسلہ آخری شمارہ یعنی اپریل 1977ءتک جاری رہا۔ عقیل عباس جعفری ٹیلی فونک گفتگو میں بتا رہے تھے چونکہ اُردونامہ شان الحق حقی کے خوب کی تعبیر تھا ان کے ادارے سے رخصت ہوتے ہی ارباب ادارہ نے اسے حقی صاحب کا ذاتی شوق جانے ہوئے بند کر دیا۔ بعد میں 1997ءمیں اس رسالے کے سترہ سالوں کے 54 شماروں کا جب اشاریہ شائع ہوا تو تب معلوم ہوا کہ اُردونامہ کی اشاعت کی صورت میں کتنے شاندار اور تحقیقی مضامین پڑھنے کو ملے۔
عقیل عباس جعفری نے ”اُردونامہ“ کی از سرِ نو اشاعت کے بارے میں باتیا کہ انہوں نے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن اسلام آباد سے رابطہ کر کے رسالہ کی اشاعت کے لیے فنڈز کا تقاضہ کیا تو انہوں نے کہا فی الحال ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ جس پر جعفری صاحب نے کہا اگر مَیں خود وسائل پیدا کر لوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔ اسلام آباد سے پیغام آیا نیکی اور پوچھ پوچھ۔ عقیل عباس جعفری نے کراچی سے اپنے طور پر رسالے کی اشاعت کے وسائل پیدا کیا اور یوں چالیس برس کے طویل عرصے بعد ”اُردونامہ“ شائع ہو گیا۔ تازہ شمارے میں ڈاکٹر عرفان شاہ کے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے کا ایک باب ”شان الحق حقی اور ترقی اُردو بورڈ کی لغت“۔ اُردو لغات کا تذکرہ (ڈاکٹر مولوی عبدالحق)، دانش گاہ فکر و قلم (جوش ملیح آبادی)، قاموس الہند (ڈاکٹر رؤف پاریک) اور اُردو لغات میں املا کی وضاحت (ڈاکٹر نذیر آزاد) کے مضامین شامل ہیں۔ عقیل عباس جعفری کی موجودگی میں ”اُردونامہ“ کی دوبارہ اشاعت ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر مشیر وزیراعظم عرفان صدیقی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے میرٹ پر عقیل عباس جعفری کا انتخاب کر کے اُردو لغت بورڈ کراچی کے مُردہ گھوڑے میں نئی جان پھونک دی۔
ماہ نو لاہور اور اخبارِ اُردو اسلام آباد نے سرسیّد احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت پر خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔ خاص طور پر ماہ نو لاہور نے تو کمال کر دیا۔ اس اشاعت کے لیے مضامین کا انتخاب اور حسن اشاعت کی وجہ سے ہم الگ سے ایک کالم قارئین کرام کے گوش گزار کریں گے۔ فی الحال انہی رسائل کو اپنے گھر، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے لیے منگوائیں تاکہ معلوم ہو کہ ہم آج بھی حرف سے محبت کرتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ