اپریل کے پہلے ہفتے ہمیں ڈاک کے ذریعے ایک ایسی کتاب موصول ہوئی جو کیپٹن اسفندیار بخاری شہید کے بارے میں اُنہی کے استادِ محترم پروفیسر محمد ظہیر قندیل نے تحریر کی۔ کتاب کا نام ”معرکہء بڈھ بیر کا ہیرو“ ہے۔ اور کسی استاد کی طرف سے اپنے بہادر شاگرد کے لیے اس سے بڑھ اور تحفہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنے شاگرد کی یادوں کو بہت ہی خوبصورت انداز سے قلم بند کیا۔ محمد ظہیر قندیل خود بھی بہت اچھے لکھنے والے ہیں اور خاص طور پر وہ کالم نگاری، تحقیق و تنقید، طنز و مزاح، ڈراما، افسانہ نگاری اور شاعری کے ذریعے گزشتہ کئی عشروں سے سرگرم ہیں۔ اس وقت وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں شعبہ اُردو کے سربراہ ہونے کے علاوہ بے شمار نصابی و غیر نصابی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اُن کی قلم کی جولانیاں ”معرکہء بڈھ بیر کا ہیرو“ میں دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے شاگرد کی شہادت کے بعد لکھنی شروع کی اور اس دوران انہوں نے اور کچھ نہیں لکھا۔ کیپٹن سیّد اسفندیار بخاری کی شہادت 18 ستمبر 2015ء کو ہوتی ہے۔ اور 2015ء سے لے کر 23 مارچ 2017ء تک پروفیسر محمد ظہیر قندیل نے صرف اپنے شاگرد کے بارے میں ہی سوچا اور لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
”استاد کو اہلِ فکر و دانش نے روحانی باپ ہونے کا درجہ بخشا ہے۔ مَیں یہ کتاب لکھ کر اپنے شہید روحانی بیٹے کو کسی قسم کا خراجِ تحسین پیش نہیں کر رہا میری یہ حیثیت ہی نہیں کہ مَیں اُس کی مختصر مگر پاکیزہ، مصروف لیکن لطیف زندگی کا احاطہ کر سکوں۔ صلہء شہید تب و تابِ جاودانہ ہے جو اسے مل چکا ہے۔ کیا یہ جاوِدانی، آب و تاب یونہی مل جایا کرتی ہے۔ مصنوعی اور فرضی داستانوں سے ایک شور، غلغلہ اور ہنگامہ تو برپا کیا جا سکتا ہے۔ ایوارڈ، اعزازات اور خطابات تو بٹورے جا سکتے ہیں مگر تب و تابِ جاودانہ اسے حاصل ہوتا ہے جس کا مطلوب و مقصود کچھ اور نہیں بس ایک منزلِ شہادت ہے۔ اور یہ مرتبہ پانے کے لیے جان دینا پڑتی ہے۔“
پروفیسر محمد ظہیر قندیل کو جب اپنے شاگرد کی شہادت کی خبر ملی تو ان کے لیے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت تھا۔ اسی کیفیت میں وہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنے شہید شاگرد کی یادوں کے حوالے سے سب سے پہلے شہید کے نام ایک خط تحریر کیا وہ خط پھیلتا پھیلتا کتاب کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ کتاب نہ تو کوئی کہانی بیان کرتی ہے اور نہ ہی کوئی افسانہ۔ یہ کتاب تو صرف ان دکھوں کا اظہار ہے جو اسفندیار بخاری کی شہادت کے بعد اُن کے ذہن میں آئے۔ پروفیسر محمد ظہیر قندیل کا اپنے شاگرد کے ساتھ بہت زیادہ پیار تھا اور اسی پیار کی وجہ سے وہ گاہے گاہے ملنے والوں کو بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ میرا ایک شاگرد پاک فوج میں جا کر کتنی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ اسفندیار اپنے یاروں کے ساتھ خوش رہتا تھا لیکن وہ اپنے استاد کی دی ہوئی تربیت کا اظہار بھی ہر جگہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پروفیسر محمد ظہیر قندیل کو اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے صرف اسفندیار کا ذکر تواتر سے اس لیے کرتے تھے کہ اسفندیار بخاری اُن کے تمام شاگردوں میں سے بالکل مختلف شاگرد تھا۔ اسفندیار بخاری کالج میگزین کے لیے مضامین بھی لکھا کرتا تھا اور بطور کیڈٹ وہ اپنے ادارے کا قابلِ فخر نام بن رہا تھا۔ ان کی شہادت کی خبر جب اُن کے استادِ محترم پروفیسر محمد ظہیر قندیل کو ملی تو انہوں نے ایک خط شہید اسفندیار بخاری کے نام تحریر کیا جس میں وہ لکھتے ہیں:
”میرے پیارے بیٹے آج تمہارے بارے میں خبر ملی جس سے جان پایا کہ شہادت تمہیں نہیں ملی بلکہ تم نے خود تلاش کر کے اسے گلے لگایا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ تمہاری جستجو کیا تھی۔ تمہاری منزل کونسی تھی؟ تمہارا مقامِ سکون کیا تھا؟ تمہیں کس چیز کی بے چینی تھی۔ میرے شہید بیٹے آج تم کتنے بڑے ہو گئے ہو اور مَیں کتنا چھوٹا رہ گیا۔“
پروفیسر محمد ظہیر قندیل کی یہ کتاب صرف کیپٹن سیّد اسفندیار بخاری کی شہادت ہی کے متعلق نہیں بلکہ یہ کتاب ہر اُس شہید کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جو وطن کی خاطر قربان ہوئے۔ پروفیسر محمد ظہیر قندیل خود کہتے ہیں کہ ”میرے لیے اس کتاب کا لکھنا کبھی گلزار سے کبھی خارزار سے، کبھی کہسار کے پُرپیچ اور سنگین راہگزار سے ننگے پاؤں سفر کرنے کے مترادف رہا۔ مَیں ہر لمحہ اسفندیار کو اپنے ساتھ ساتھ محسوس کرتا رہا۔ شہادت و تدفین کے بعد لکھنا میرے لیے انتہائی دشوار تھا۔ کئی بار میرے دل کو جیسے کسی آہنی ہاتھ نے جکڑ لیا ہو۔ دل پر گزرنے والی کیفیت کو رقم کرتے ہوئے اشک آنکھوں سے بے اختیار گرنا شروع ہو جاتے تھے۔ کئی بار جب گھر والے مجھے روتے ہوئے دیکھتے تو وہ ایک دوسرے کو بتاتے کہ ابو رو رہے ہیں لیکن میری اہلیہ جانتی تھی کہ مجھے کس بات کا صدمہ ہے، پھر وہ میرا ساتھ نبھانے آ جاتی۔“
یہ کتاب صرف کیپٹن سیّد اسفندیار بخاری کے بارے میں ہی نہیں بلکہ ہمارے ہر اُس شہید کے متعلق ہے جس نے اپنا کل ہمارے آج کے لیے قربان کردیا۔ پروفیسر محمد ظہیر قندیل کی اس کتاب نے میری لائبریری کو اور زیادہ خوبصورت کر دیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اُن کی اس کتاب کی وجہ سے میری لائبریری روشن ہو گئی ہے کہ اس لائبریری میں ایک ایسے شہید کے بارے میں کتاب موجود ہے جس کے بارے میں ہر شخص پڑھنا چاہتا ہے۔ پروفیسر محمد ظہیر قندیل نے کیپٹن اسفندیار بخاری کی پیدائش سے لے کر شہادت تک تمام واقعات تفصیل سے لکھ دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راؤ منظر حیات نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کچھ یوں لکھا:
”مَیں پروفیسر محمد ظہیر قندیل جتنا خوش قسمت نہیں کہ ایک عظیم شہید میرا شاگرد رہا ہو اور نہ ہی مَیں اُردو کے اُس عظیم اُستاد جتنی اُردو پر دسترس رکھتا ہوں۔ ظہیر صاحب نے جو خط اپنے شہید شاگرد کو لکھا، اس کا ایک ایک لفظ دل سے لکھا گیا، اسے پین یا پینسل سے رقم نہیں کیا گیا بلکہ روح کی تختی پر سچائی کے قلم سے زبان دی گئی کہ اُن کے تحریر شدہ الفاظ اَمر ہو گئے۔“
رنگین تصویروں سے مزین 300 سے زائد اس کتاب کی قیمت صرف 600/- روپے ہے جو کیڈٹ کالج حسن ابدال سے مل جائے گی۔ اور میری خواہش ہے کہ یہ کتاب ہر اُس گھر میں ہو جو پاکستان سے محبت کرتا ہے اور جو شہیدوں کو اپنے سر کا تاج بناتا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ