نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام سالانہ آٹھویں قومی کتاب میلے کا عنوان اس مرتبہ ”کتاب – زندگی، اُمید، روشنی“ رکھا گیا۔ اس میلے کو جن دوستوں نے سجانے میں اہم کردار ادا کیا تو مَیں اس میلے کا نام کچھ اس انداز سے تجویز کرتا ہوں ”کتاب انعام، کتاب عطا، کتاب عرفان“۔ اس مرتبہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے مسعود اشعر، عطاءالحق قاسمی، ڈاکٹر شاہد صدیقی، زاہدہ حنا، احسان اکبر، آغا محمد ناصر، حامد میر، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر فتح محمد ملک، سعداﷲ شاہ، توصیف تبسم، اسلم کمال، محمود شام، مبین مرزا، نذیر تبسم، خالد شریف، جاوید چوہدری، فاروق عادل، محبوب ظفر، محمد حمید شاہد، مبین مرزا، ریاض مجید، افتخار عارف، تابش الوری، عکسی مفتی، اصغر ندیم سید، نوید حیدر ہاشمی، خواجہ رضی حیدر، کشور ناہید، خالد مسعود خان، ڈاکٹر اختر شمار، تحسین فراقی، ہارون رشید تبسم، محمد آصف بھلی، محمد مختار علی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، عقیل عباس جعفری، فرخ سہیل گوئندی، ڈاکٹر فوزیہ چوہدری، ناصر بشیر، راشد نور، ناصر علی سید، جبار مرزا، مرتضیٰ نور، نورین طلعت عروبہ، عذیر احمد، منصور آفاق سمیت بے شمار لکھنے والوں کو کتاب ایمبیسیڈر کا اعزاز دیا۔ گزشتہ برس کی طرح اس مرتبہ بھی افتتاحی تقریب میں صدرِ مملکت ممنون حسین نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی بلکہ انہوں نے فی البدیہہ الطاف حسین حالی کا وہ شعر بھی سنایا جو انہوں نے حسرت موہانی کے لیے کہا تھا
ہے زباں لکھنؤ سے رنگِ دہلی کی نمود
تجھ سے روشن نام حسرت شاعری کا ہو گیا
صدر مملکت نے جب یہ شعر الطاف حسین حالی کا کہہ کر سنایا تو بہت سے اہلِ قلم کہنے لگے حسرت کا شعر انہوں نے حالی کے نام سے سنا دیا جس پر افتخار عارف نے کہا کہ یہ شعر حالی نے حسرت کے لیے کہا تھا جو صدرِ مملکت نے درست نام لے کر سنایا۔ گزشتہ برس بھی ممنون حسین نے لکھی ہوئی تقریر کو سائیڈ پر رکھ کے فی البدیہہ گفتگو کرنا شروع کر دی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس برس بھی انہوں نے کراچی سے آئے ہوئے اہلِ قلم کا اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں انہوں نے افتتاحی گفتگو کرتے ہوئے تالیوں کی گونج میں بتایا کہ پچھلے برس ہم نے بتیس کروڑ کی کتابیں فروخت کیں۔ اس برس ہمارا ٹارگٹ اس سے کہیں زیادہ کا ہے۔
عالمی یومِ کتاب کے موقع پر ہونے والا یہ ”قومی کتاب میلہ“ اب پاکستان کی ایک ایسی روایت بن گیا ہے جس کا انتظار پورے پاکستان سے پڑھنے لکھنے والے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب عرفان صدیقی نے افتتاحی تقریب میں یہ بتایا کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن سال کے 365 دنوں میں روزانہ ایک کتاب شائع کر رہا ہے بلکہ درجنوں کتابوں کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے ایڈیشن بھی شائع کر چکا ہے۔ عرفان صدیقی کسی زمانے میں قلم کاروں کے قبیلے کا حصہ تھے موجودہ حکومت نے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کا سربراہ بنایا ہوا ہے اس لیے اب وہ ہر وقت قلمکاروں کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ وہ خوبصورت نثر نگار ہونے کے علاوہ شاعر بھی ہیں لیکن ہم نے انہیں کبھی مشاعروں میں شوق و ذوق سے شرکت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ البتہ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے سربراہ ہونے کے باوجود وہ قومی کتاب میلہ کے تینوں دن صبح سے لے کر شام تک کسی نہ کسی تقریب میں کہیں بطورسامع موجود ہوتے تو کہیں مقرر کے طور پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے۔انہوں نے افتتاحی تقریب کی گفتگو میں اپنے ادارے کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی اور بتایا کس طریقے سے علم و ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس برس نیشنل بک فاؤنڈیشن نے مہمانِ خصوصی کی آمد سے پہلے اُردو کے نامور ادیب مسعود مفتی کو سٹیج پر بٹھا دیا جس کا ذکر خصوصی طور پر صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی کیا۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ سکول کے بچوں نے طارق نعیم کا لکھا ہوا ”کتابوں کی دنیا سلامت رہے“ گیت پیش کیا۔ تقریب کی نظامت محبوب ظفر اور قرة العین رضوی کے حصے میں آئی جنہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں تقریب کو سجایا۔ تین دن کے اس میلے میں سینکڑوں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کتابوں کی رونمائی، مشاعرے، کتاب خوانی، مذاکرے، ڈرامے اور کتابوں ہی سے متعلق بے شمار تقریبات کے علاوہ خطاطی کی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ کتاب میلے کی سب سے پسندیدہ جگہ پاکستان بھر سے آئے ہوئے پبلشرز کے وہ سٹال تھے جہاں پر رعایتی قیمت پر کتابیں دستیاب تھیں اور خوشی اس بات کی ہے کہ تینوں دن ہزاروں لوگوں نے اس میلے میں کروڑوں روپے کی کتابیں خرید کر اپنے شوق کی آبیاری کی۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید اپنی انتھک ٹیم کے ساتھ تینوں دن صبح سے لے کر شام تک موجود رہتے اور انہیں اس بات کا یہ احساس رہتا تھا کہ ملک بھر سے آئے ہوئے کتاب ایمبیسیڈرز کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پورے اسلام آباد میں انہوں نے ہر سفیرِ کتاب کی تصویر والے پینافلیکس آویزاں کروائے لیکن ان میں اُن کی اپنی تصویر کا کوئی پینافلیکس نہیں تھا۔ وہ اس کوشش میں رہتے تھے زیادہ سے زیادہ اپنے مہمانوں کو وقت دے سکیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔
میلے سے ایک دن پہلے ہی پانامہ لیکس کا فیصلہ آیا تو یار دوستوں کا خیال تھا کہ یہ میلہ اس مرتبہ اس گہماگہمی سے منعقد نہیں ہو گا جو اس کا خاصہ ہوا کرتا ہے لیکن ہم نے تین دن تک یہی دیکھا کہ اسلام آباد میں ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس میلے کی زیارت کر لے۔ نامور ادیبوں کے ساتھ تصاویر، اُن کی کتابوں پر آٹوگراف، سفیرانِ کتاب سے ہاتھ ملانا اور قرعہ اندازی کے ذریعے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے لاکھوں روپے کی کتب کے مفت تحفے قومی کتاب میلے کو چار چاند لگا رہے تھے۔ خود ہماری یہ کیفیت تھی کہ جن لوگوں کو پڑھتے پڑھتے ہم نے لکھنا سیکھا اُنہی کے ساتھ بیٹھ کر اس میلے میں ہم نے باتیں کیں۔ ان کے ساتھ سانس لیے، اُنہیں جی بھر کے دیکھا۔ اُن لمحوں کو مَیں نے اپنی یادوں کی البم میں اہتمام سے سجایا کہ معلوم نہیں یہ لمحے دوبارہ کبھی ہماری زندگی میں آ بھی سکیں گے کہ نہیں۔ 2017ءکے اس میلے میں ہم نے جہاں مختلف تقریبات میں خطاب کیا وہاں پر نامور اہلِ قلم کے ساتھ بہت سا وقت گزارا۔ یہ میلہ تین دن صبح سے لے کر شام تک آباد رہا۔ لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور پھر اختتامی تقریب میں اس شاندار میلے کو نظر لگ گئی۔ پنڈی کی ایک شاعرہ فرزانہ ناز کتاب دینے کے لیے سٹیج پر گئی اور پھر گرتے ہی بےہوش ہو گئی۔ اس کو بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگلی مرتبہ جب نیشنل بک فاؤنڈیشن کتاب میلے کا اہتمام کرے گا تو اس کے تمام شرکاء کو جہاں اور تحائف بھی دے گی اس میں فرزانہ ناز کا وہ شعری اثاثہ بھی شائع کر کے اسے خراجِ تحسین پیش کرے گی جو اب تک غیر مطبوعہ ہے کیونکہ اگر انسان دنیا سے کوچ کر بھی جائے تو اس کی کتابیں زندگی، اُمید اور روشنی کا پیغام دیتی ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)