روزنامہ ایکسپریس کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہم نے کبھی بھی کراچی کے بعد لاہور، ملتان اور دیگر شہروں میں ’’بلاول ہاؤس‘‘ کی تعمیر کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بلاول ہاؤس اربوں روپے سے تعمیر ہونے والا وہ پُرتعیش محل ہے جس میں پی پی کا ’’جیالا‘‘ بھی آسانی سے داخل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی ہماری ملکی سیاست کے جتنے بھی بڑے نام ہیں ان کے گھروں میں عام کارکنوں کا داخلہ تو ویسے ہی شجرِ ممنوعہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر بلاول بھٹو زرداری بغیر شادی کیے مسلسل بلاول ہاؤس بنا رہے ہیں تو اس سے یہ محسوس ہوتا ہے انہیں عوام کی خدمت سے کم دلچسپی ہے بلکہ وہ اپنے لئےگھر بنوانے میں زیادہ مصروف رہتے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے بلاول ہاؤس کے لیے اولیائے ملتان کے شہر کا انتخاب کیا ہے جہاں پر صحت، تعلیم، سیوریج اور بے روزگاری کے اتنے مسائل ہیں کہ اگر بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کے نام پر اسی جگہ پر کوئی ہسپتال بنا دیتے تو جنوبی پنجاب کے پسے ہوئے مظلوم و محکوم لوگوں کو صحت کی کوئی تو سہولت میسر آ جاتی۔ لیکن بلال بھٹو کو کیا معلوم انہوں نے اپنے محل کے لیے جو 28 کنال جگہ خریدی ہے اتنی اراضی پر کوئی فلاحی منصوبہ بھی تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ اس شہر میں ماضی میں جن سیاست دانوں نے عروج پایا انہوں نے بھی بڑے بڑے محل بنائے۔ مثال کے طور پر نواب صادق حسین قریشی (سابق گورنر و وزیراعلیٰ پنجاب) کے گھر کا نام وائٹ ہاؤس تھا۔ آج وائٹ ہاؤس اتنا ویران ہے کہ کئی ہفتے تک یہاں کے مکین اپنے ہی گھر کا رُخ نہیں کرتے۔ اسی طرح سابق گورنر مخدوم سجاد حسین قریشی کا گھر ’’باب القریش‘‘ ہے۔ یہ باب اب مخدوم شاہ محمود قریشی کے زیرِ استعمال ے۔ یادش بخیر یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بننے سے پہلے ایک سادہ سے گھر کے مکین تھے وزیراعظم بنتے ہی آہنی دیواریں کھڑی ہوگئیں۔ وہ اگرچہ اپنے حلقہ کے عوام سے ملتے تو ہیں لیکن وہ انداز ہمیں اب بھی یاد آتا ہے جب ہر کوئی بلا اجازت ان سے ملاقات کر لیتا تھا۔ جاوید ہاشمی نے اپنے گھر کے دروازے وا کر رکھے ہیں لیکن ان کا گھر ایسی جگہ پر ہے کہ وہاں پر عام آدمی کا جانا محال ہے۔ ایسے میں اگر بلاول بھٹو زرداری ملتان میں اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں تو وہ پہلے اپنے گھر کی دیواروں کو مضبوط بنانے کی بجائے پارٹی کو مضبوط بنائیں۔ یہ ایک ایسی پارٹی رہی ہے جس کی بنیادوں میں سینکڑوں کارکنوں کا خون موجود ہے۔ دور کیوں جائیں آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی اور فیڈرل کونسل کے رکن رفعت حیات ڈاہا (جن کا تعلق خانیوال سے تھا) کی پارٹی سے محبت کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔
یہ وہ سیاست دان تھا جس نے پارٹی نہ چھوڑی لیکن اس کے حقیقی بھائی نے پارٹی نہ چھوڑنے کی وجہ سے اس کی بیٹی کو طلاق دے کے گھر بھجوا دیا کیونکہ رفعت حیات ڈاہا نے کسی الیکشن میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اسی حقیقی بھائی کے مقابل کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے سے انکار کر دیا تھا۔ میجر ریٹائرڈ رفعت حیات ڈاہا اگرچہ انتخابات میں جیت گئے لیکن اُن کے گھر میں اولاد کی زندگی کے دن ہارنے لگے۔ اور پھر یہی غم ان کے لیے موت کا سبب بن گیا کہ جس بیٹی کو پیپلز پارٹی سے تعلق کی وجہ سے طلاق مل گئی اس پارٹی نے کبھی بھولے سے بھی رفعت حیات ڈاہا کی خبر نہ لی۔ وہ تو شکر ہے کہ ان کی قل خوانی میں سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے شریک ہو کر پوری پارٹی کا کفارہ ادا کر دیا لیکن پارٹی کے نام پر صدرِ مملکت بننے والے آصف علی زرداری سے لے کر کسی بھی مرکزی رہنما نے تادمِ تحریر اُن کے گھر جانے کی زحمت نہیں کی۔
رفعت حیات ڈاہا نے پارٹی کے لیے بہت قربانیاں دیں اور پھر بے نظیر بھٹو جب تک زندہ رہیں اُن کی قدر کرتی رہیں۔ بیگم اشرف عباسی مرحومہ کے ساتھ بھی اُن کا بڑا گہرا تعلق تھا۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو عروج ملا۔ لیکن جب ایسے لوگوں کی قدر نہ کی گئی تو پھر انجام آپ کے سامنے ہے۔ چند ہفتے قبل جب لاہور میں NA-120 میں ضمنی انتخابات ہوتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کو 1441 ووٹ ملتے ہیں۔ ایک ایسا وقت جب پیپلز پارٹی کے اُمیدواروں کی پنجاب میں ضمانتیں ضبط ہو رہی ہوں تو اس قحط الرجال کے زمانے میں پارٹی کے کسی ایک مخلص آدمی کے دنیا سے چلے جانے کا مطلب یہ ہے کہ 1441 میں سے 1440 ووٹ رہ گئے۔ اصولی طور پر تو بلال بھٹو زرداری کو تو یہ چاہیے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کی بحالی کے لیے کمربستہ ہوں۔ وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بڑے لیڈر نہیں ہیں۔ ان دونوں نے کبھی لاڑکانہ اور کراچی کے علاوہ گھر نہیں بنائے۔ لیکن آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری جتنی تیزی سے ہر شہر میں اپنے گھر تعمیر کر رہے ہیں اس سے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کو پورے پاکستان میں اپنے پارٹی رہنماؤں پر اعتبار نہیں رہا اسی لیے وہ ہر شہر میں بلاول ہاؤس بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ وہ بلاول ہاؤس بنانے کی بجائے سماجی خدمت کے سنٹر قائم کریں۔ ہر شہر میں ایدھی سنٹر کو اَپ گریڈ کروائیں۔ کراچی میں SIUT کی طرز کو سامنے رکھ کے ہر بڑے شہر میں اپنی والدہ کے نام پر ہسپتال بنوائیں۔ سر گنگا رام کی مثال بنیں۔ گلاب دیوی کی سوانح کا مطالعہ کریں۔ رتھ فاؤ کے نظریات کو سامنے رکھیں۔ اگر آپ اس زندگی کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں تو بلاول ہاؤس نہیں بلکہ پریشان حال لوگوں کے لیے خدمت کے ادارے بنائیں۔ ابھی بھی وقت ہے ملتان کے بلاول ہاؤس کو کسی ہسپتال کا درجہ دیں، اس کو چلانے کے لیے وسائل آپ کے پاس موجود ہیں۔ اگر وہاں پر روزانہ سو افراد کو بھی ادویات مفت ملیں تو سال بعد ہزاروں افراد آپ کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ معلوم نہیں آپ کے مشیر کون ہیں ؟ جو آپ کو بلاول ہاؤس بنانے کے مشورے دیتے ہیں۔ سیاست میں اب ٹھیکیداروں کا کوئی مستقبل نہیں۔ سیاست میں اب وہی کامیاب ہو گا جو خدمت کے لیے منصوبے بنائے گا۔ اس لیے بلاول بھٹو زرداری صاحب آپ ملتان آئیں لیکن اپنے گھر کو لوگوں کے لیے مختص کر دیں جہاں پر خدمت ہو جس کے بعد اُمید ہے پارٹی کی ضمانت کم از کم اُس حلقے میں ضبط نہیں ہو گی جس حلقے میں آپ خدمت کا آغاز کریں گے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ