امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بات اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے طویل اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہے۔ این ایس سی کا اجلاس 29 دسمبر اور 2 جنوری کو منعقد ہؤا تھا اور اس کے دوران سول و عسکری قیادت نے ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کا عزم ظاہر کیا تھا۔
یوں تو امریکی وزارت خارجہ کا یہ بیان ایک روٹین کی سفارتی کارروائی ہے لیکن اگر اس بیان کو افغانستان میں امریکہ کی طویل جنگی کاوش کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی اہمیت، ضرورت اور اس سے پیدا ہونے والے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکہ کے دورہ کے دوران کہا تھا کہ امریکی حکام پاک افغان سرحدوں کو محفوظ کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے پر تیار ہیں۔ امریکی کانگرس میں حال ہی میں منظور ہونے والے مالی بل میں اس مقصد کے لئے معمولی گرانٹ بھی رکھی گئی ہے۔ امریکہ فی الوقت یوکرین کی جنگ میں مصروف ہےاور چین کی تجارتی پیش رفت کے سامنے بند باندھنے کی حکمت عملی اس کی ترجیحات میں سب سے اوپر ہے ۔اس لئے پاکستان کی سلامتی اور ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات فوری امریکی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان میں حال ہی میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد امریکی تشویش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بھولا نہیں ہے اور افغانستان سے دہشت گردی کے پھیلاؤ کے بارے میں واشنگٹن میں بدستور تشویش پائی جاتی ہے۔
پاکستان کو البتہ اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے امریکی ضرورتوں اور ترجیحات کی بجائے اس مسئلہ کو علاقائی سیاسی و اسٹریٹیجک ضرورتوں کے حوالے سے دیکھنا چاہئے۔ تحریک طالبان پاکستان ایک مقامی گروہ ہے البتہ نظریاتی طور سے افغان طالبان کے قریب ہونے کی وجہ سے اسے کابل حکومت کی ہمدردی و سرپرستی حاصل ہے۔ اگرچہ افغان حکومت کے ترجمانوں نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔ امریکی ترجمان نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور پاکستان کے متعدد وزیر بھی یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین کو بیرون ملک دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ جیسا کہ نیڈ پرائس نے بھی کہا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدہ میں خاص طور سے اس بارے میں وعدہ کیا تھا ۔ اب یا تو طالبان افغانستان میں دہشت گرد باغی گروہوں کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں یا پھر وہ ایسا کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ اس بیان کا یہ پہلو دلچسپی سے خالی نہیں ہونا چاہئے کہ اگر امریکہ کسی مرحلے پر یہ طے کرلیتا ہے کہ دوحہ معاہدہ کے تحت طالبان کراس بارڈر دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تو اس کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ کیا وہ اسے طالبان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے طالبان کے خلاف ایک بالواسطہ جنگ کا اعلان کرسکتا ہے۔ یہ اندیشہ موجود ہے کہ ایسی کسی صورت میں پاکستان کا کیا کردار ہوگا؟ کیا پاکستان ماضی کی طرح احساس شکرگزاری سے ایک بار پھر ایسی امریکی جنگ میں ’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘ بننےپر آمادہ ہوجائے گا۔ اور اس صورت میں کیا نتائج و عواقب کے بارے میں تفصیل سے غور و خوض کرلیا گیا ہے۔
یہ امکان اس صورت میں زیادہ روشن ہوسکتا ہے اگر طالبان، داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں کمزور پڑنے لگتے ہیں اور یہ گروہ افغانستان میں اتنے مضبوط ہوجاتے ہیں کہ وہ ان ٹھکانوں سے مشرق وسطی یا دیگر ممالک میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا سبب بننے لگیں۔ داعش کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد سے متحرک کروہ کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس نے مسلکی اقلیتوں پر مسلسل حملے کئے ہیں۔ یہ حملے افغانستان کے اندر سے ہی منظم ہوتے ہیں اور طالبان اپنے تمام تر جنگی تجربے اور عوام میں رسوخ کے باوجود ان عناصر کو کنٹرول کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ فی الوقت افغانستان میں داعش اور القاعدہ کی اصل قوت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بارے میں محض قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔ لیکن کوئی ایک واقعہ اس ڈائینامک کو تبدیل کرسکتا ہے اور دنیاایک بار پھر افغانستان سے ابھرنے والی شدت پسندی کو عالمی امن کے لئے خطرہ سمجھنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔
افغانستان پر ایک ایسا گروہ حکومت کررہا ہے جسے دنیا میں کوئی ملک تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور اس کے عسکری پس منظر کی وجہ سے اس پر اعتبار کی سطح بھی بہت کم ہے۔ خاص طور سے طالبان نے بنیادی حقوق، خواتین کی معاشرے میں حصہ داری اور لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں اپنے تمام وعدوں سے انحراف کرکے عالمی سطح پر اعتماد سازی کی کوئی قابل ذکر کوشش بھی نہیں کی ہے۔ اب پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی لہر نے ایک بار پھر کابل حکومت کا طرز عمل اسلام آباد کے علاوہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لئے تشویش کا سبب بن رہا ۔ امریکی وزارت خارجہ اسی طرف اشارہ کررہی ہے اور اس بیان سے ایک طرح پاکستان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ طالبان کو ’سبق ‘ سکھانے کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہ کرے، امریکہ بہادر کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوں گی۔ تاہم ایسی کوئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ غیر ارادی طور پر وہ ایک بار پھر کسی نئی امریکی جنگ کا حصہ دار نہ بن جائے۔ ایسے کسی اقدام سے علاقے میں پاکستان کے لئے حالات زیادہ مشکل ہوسکتے ہیں۔
امریکی بیان میں ایک طرف پاکستان کے خلاف دہشت گردی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے لیکن دوسری طرف بھارتی حکومت اور اس کا وزیر خارجہ پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا البتہ امریکی حکام کو ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات پر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں آسٹریا کا دورہ کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز کہا۔ اور ایک صحافی کی نشاندہی پر کہ ایسا اظہار غیر سفارتی و غیر مہذب ہے، جے شنکر کا کہنا تھا کہ ’ یہ سوچتے ہوئے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مرکز عین سفارتی لفظ ہے‘۔ حالانکہ بھارتی حکومت کا یہ طرز عمل صریحاً پاکستان کو سفارتی لحاظ سے تنہا کرنے کی یک طرفہ کوشش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے اسی لئے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 2021 میں لاہور میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث تھا جس کے ٹھوس شواہد سامنے لائے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو جس طرح ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سے بھی پوری دنیا باخبر ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ انہی جرائم کو چھپانے کے لئے مسلسل پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ امریکہ جب دہشت گردی کا نشانہ بننے پر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے تو وہ اپنے حلیف اور اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت کو پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی سے باز کیوں نہیں رکھتا۔ واشنگٹن کیوں نئی دہلی پر واضح نہیں کرتا کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا نشانہ بنا ہؤا ہے اور بھارت کا اینٹی پاکستان بیانیہ درحقیقت دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن بھارت کے حوالے سے واشنگٹن کی خاموشی سے امریکی حکمت عملی کا تضاد واضح ہوتا ہے۔ امریکہ ، پاکستان اور چین میں دراڑ ڈالنے کے لئے تو بظاہر پاکستان کا ہمدرد بنتا ہے لیکن جب حقیقی مسائل کی بات آتی ہے اور بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذکر ہوتا ہے تو امریکہ کی ’قومی مجبوریاں‘ اس کے انسانی حقوق کے دعوؤں اور دہشت گردی کے خلاف بیانیہ پر حاوی رہتی ہیں۔
پاکستان میں یہ بات متعدد حلقوں کی جانب سے کہی جارہی ہے کہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اپنی حکمت عملی واضح نہیں کرسکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ اس سے پہلے گزشتہ سال کے دوران تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر مصالحت کی کوشش کی گئی تھی ۔ ابھی تک یہ معلومات سامنے نہیں آئیں کہ ان مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی کو کیا مراعات دی گئی تھیں۔ اور کیا وجہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں کارکن اب پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں اور سرکاری اداروں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کو بھی للکار رہے ہیں۔یہ واضح ہونا چاہئے کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی مقامی ضرورتوں اور ریجنل حساسیات کو پیش نظر رکھ کر تیار ہونی چاہئے۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے تمام چینل کھولنے اور کھلے دل سے مسائل پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ امریکی بیانات اور وعدوں پر اعتبار کرنے یا ان پر خوش ہونے کی بجائے چین جیسی قوت کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش زیادہ دوررس نتائج سامنے لاسکتی ہے۔ چین خود بھی دہشت گردی سے نمٹنا چاہتا ہے اور اس کے افغانستان سے معاشی اور تزویراتی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ چین ریجنل پاور ہے جبکہ امریکہ دور دراز علاقوں میں مداخلت کا شوق ضرور رکھتا ہے لیکن ہر منصوبہ کو بیچ میں چھوڑ کر فرار اختیار کرنے کی شہرت بھی رکھتا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )