ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ریاست مذہب کے نام پر حاصل کی گئی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت اور اس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی اپنے عرج پر پہنچ گئی ۔ اس سے پیشتر کئی صدیوں سے ہندو، مسلمان اور دوسرے مذاہب کو ماننے والے برصغیر میں امن اور شانتی سے مل جل کر رہ رہے تھے۔ یہاں رہنے والے ہر مذہب و مسلک سے منسلک لوگوں کا رہن سہن، تہذیب و تمدن اور روایات سب کچھ تقریباً ایک جیسا تھا۔ بہت سی ہندوانہ رسومات مسلمانوں اور مسلم روایات ہندوؤں میں رائج ہو چکی تھیں اور کسی حد تک آج بھی رائج ہیں۔ دونوں مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی مقدس ہستیوں کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسری کے مذہبی تہواروں میں جوش و خروش سے شرکت بھی کرتے تھے۔
قائد اعظم خود کو لبرل اور سیکیولر مسلمان کہتے تھے لیکن ان کے قول و فعل میں شدید تضاد تھا۔ مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کسی بھی طور پر ایک جائز مطالبہ نہیں تھا۔ ایک سیکیولر انسان ایسا ناقابل فہم مطالبہ کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جناح صاحب کا زندگی گزارنے کا انداز انگریزوں جیسا تھا۔ وہ انگریزی سوٹ پہنتے تھے، سگار اور شراب پیتے تھے، کتے پالتے تھے اور کبھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس کے باوجود برصغیر کے نصف مسلمانوں نے ان کو اپنا قائد تسلیم کیا اور ان کی قیادت میں اسلام کے نام پر پاکستان کی بنیاد رکھی۔
تقسیم ہند کے بعد اس کے مخالف آدھے مسلمان ہندوستان میں ہی رہ گئے اور تقسیم کے ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے لگے۔ ہندوستان کے یہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی سزا آج بھی بھگت رہے ہیں۔ پچھلے دس سال سے ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نریندر مودی جیسے سفاک قاتل کی قیادت میں برسراقتدار ہے اور اس نے مسلمانوں کے خلاف اپنے ظلم اور جبر میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی نے جڑیں اس وقت مضبوط کیں جب 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو بنیاد پرستی پر مبنی اسلامی آئین دیا۔بعدازں بھٹو صاحب ہی نے ریاستی سطح پر تکفیریت کی بنیاد بھی رکھی۔ جناح صاحب کی طرح بھٹو بھی انگریزی لباس زیب تن کرتے تھے، خود کو لبرل اور سیکیولر کہلواتے تھے اور شراب بھی پیتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کی شراب نوشی پر آئینی پابندی عائد کی اور ملک سے ڈانس کلبوں اور شراب خانوں کا خاتمہ بھی کیا۔
ضیاءالحق نے جہاد کے نام پر اپنے ذاتی دیوبندی فرقے سے تعلق رکھنے والے اقلیتی مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مذہبی بنیادوں پر غیرمسلم ملک امریکہ کی قیادت میں "ملحد” کمیونسٹ ریاست سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں "جہاد” کے لیے تیار کیا۔ دیوبندی انتہا پسندی چار دہائیوں سے افغانستان اور پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہے۔ اس وقت افغانستان پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے تیار کیے ہوئے طالبان قابض ہیں جنہوں نے امریکہ اور اس کی افغان کٹھ پتلی حکومت کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا ہے۔
مسلمانوں کا بریلوی فرقہ ایک عرصے تک ریاست کا نسبتاً پرامن مسلک بن کر رہا۔ 2006 میں میں نے ایک سنی بریلوی خاندان میں شادی کی۔ اس وقت تک مذہبی انتہا پسندی اس فرقے میں موجود نہیں تھی۔
آصف علی زرداری کی حکومت میں آسیہ بی بی کا کیس سامنے آیا۔ آسیہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ کسی ذاتی چپقلش کی وجہ سے ان کے مسلمان مالکان نے ان پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا۔ کئی سال تک آسیہ جیل میں رہیں اور بالآخر سپریم کورٹ نے انہیں باعزت بری کر دیا اور انہیں بیرون ملک سیاسی پناہ بھی دے دی گئی۔ زرداری دور میں سلمان تاثیر گورنر پنجاب تھے۔ وہ لبرل نظریات رکھتے تھے۔ انہوں نے آسیہ بی بی کی کھل کر حمایت کی اور مقدمے کے دوران ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ اس وقت ان کے خلاف ہو گئے اور انہیں بھی توہین رسالت کا مرتکب اور واجب القتل قرار دے دیا گیا۔ 2011 میں سلمان تاثیر کو ان کے اپنے بریلوی محافظ ممتاز قادری نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
ممتاز قادری گورنر پنجاب کے قتل کے بعد بریلوی عوام میں مقبول ہو گئے اور انہیں علم دین کی طرح غازی اور سچا عاشق قرار دے دیا گیا۔
اس وقت خادم حسین رضوی نام کے ایک گمنام بریلوی عالم دین نے ممتاز قادری کے کارنامے کو کیش کیا۔ قادری کو موت کی سزا ہو گئی لیکن خادم رضوی نے ان کے نام پر اپنی مذہبی سیاست جاری رکھی۔ انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد رکھی اور ملک کے طول و عرض میں راتوں رات مقبولیت حاصل کر لی۔ ان کا انداز خطابت بہت مشہور ہوا اور بریلوی عوام نے اسے بہت پسند کیا۔ ان کی تقاریر عوامی ہوتیں اور ان میں اکثر گالیاں بھی شامل ہوتیں جو عوام میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں۔
خادم حسین رضوی نے بریلوی مسلک کے پرامن چہرے کو مسخ کر دیا اور یہ فرقہ بھی دوسرے مسلمان مسالک کی طرح انتہاپسندی کے راستے پر گامزن ہو گیا۔ خادم رضوی کو فوج کے ایک گروہ کی حمایت بھی حاصل ہو گئی اور اس گروہ نے کئی مواقع پر ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔ رضوی صاحب 2020 میں انتقال کر گئے اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے حافظ سعد رضوی ان کی گدی پر براجمان ہو گئے۔
ریاست نے کچھ سال پہلے تحریک لبیک کو کاغذی طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اس جماعت کے کارکنوں کی انتہاپسندی تھی۔ ان کارکنوں نے اپنے مظاہروں میں کئی بار ریاست کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ معصوم شہری بھی ان کی شدت پسندانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہے اور انہوں نے عام لوگوں کی گاڑیوں، ٹرکوں اور موٹرسائیکلوں کو بھی نذر آتش کیا۔ ان مظاہروں میں خود اس جماعت کے کئی کارکن بھی ریاستی تشدد کا شکار ہو کر لقمہ اجل بنے۔ اس جماعت کی قیادت ہمیشہ ان مظاہروں میں محفوظ رہی لیکن اسے قید و بند کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔ کالعدم ہونے کے باوجود لبیک کو 2018 کے عام انتخابات میں شرکت کی اجازت دی گئی اور اس نے پورے پاکستان میں غیرمتوقع طور پر خاطر خواہ ووٹ حاصل کیے اور کئی انتخابی نشستوں پر فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
حال ہی میں اس جماعت نے پنجاب میں "گستاخ” ملک فرانس کے سفیر کی ملک بدری اور اپنے رہنما سعد رضوی کی رہائی کے لیے پرتشدد مظاہروں کا آغاز کیا۔ ان مظاہروں کے دوران بہت سے پولیس اہلکاروں اور مذہبی تنظیم کے کارکنوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات آئی ہیں۔ کچھ حکومتی وزراء نے لبیک کے خلاف جارحانہ بیانات دیے جس کے ردعمل میں کارکنوں کے غصے میں مزید شدت دیکھنے میں آئی۔
سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی اور نامور بریلوی عالم دین مفتی منیب الرحمن کچھ دن پہلے اچانک منظر عام پر آئے اور انہوں نے لبیک کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کل مفتی صاحب نے لبیک کی طرف سے حکومتی وفد کے ساتھ مذاکرات کیے۔ انہوں نے لبیک کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ کل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مذ اکرات کو کامیاب قرار دیا اور لبیک کی فتح کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے مظاہروں کے دوران ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں اور لبیک کے کارکنوں دونوں کو شہید قرار دیا اور دونوں کے لیے دعائے مغفرت کی۔ انہوں نے خادم حسین رضوی کو اپنا اور اہل سنت جماعت کا روحانی پیشوا قرار دیا اور اس اعلان پر ہجوم سے داد و تحسین بھی حاصل کی۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے مطابق حافظ سعد رضوی کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا اور کالعدم کا لفظ تحریک لبیک پاکستان کے لیے آئندہ استعمال نہیں کیا جائے گا. "کافر اور گستاخ” فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے بارے میں انہوں نے کوئی بات نہیں جس کا مطلب یہی ہے کہ لبیک اپنے اس مطالبے سے بظاہر پیچھے ہٹ گئی ہے۔
مفتی منیب نے اپنی پریس کانفرنس میں لبرلز یعنی آزاد خیال لوگوں کو اپنا دشمن اور حریف قرار دیا۔ تحریک لبیک پاکستان آسیہ بی بی کی رہائی اور بیرون ملک منتقلی کے وقت بالکل خاموش تھی حالانکہ اس جماعت کی بنیاد ہی آسیہ بی بی کیس تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت ہمیشہ کسی ریاستی دھڑے کے اشاروں پر متحرک ہوتی ہے اور عشق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ معصوم اور غریب عوام کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہے اور ان کی جانوں سے کھیلتی ہے ۔ماضی میں ریاستی دھڑے اس جماعت سے اظہار یکجہتی کرتے اور اس کے کارکنوں میں روپے بانٹتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں۔ اس جماعت کے متحرک ہونے اور پھر جعلی مذا کرات یا لین دین کے ذریعے اپنے مظاہرے ختم کرنے کا کوئی وقت معین نہیں ہوتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی انتہاپسند مذہبی جماعتیں اور ان کے مخالف لبرل دونوں اس سرمایہ دار ریاست کے دلال ہیں ۔ ان لوگوں کا مقصد اس ریاست کے عوام کی توجہ دن بدن بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے ہٹانا ہے۔ ہم اشتراکیوں کی جنگ کسی مخصوص مذہبی جماعت سے نہیں ہے لیکن ہم ان سب جماعتوں کو محنت کش عوام کا براہ راست دشمن سمجھتے ہیں اور ان کے خطرناک اور پرتشدد عزائم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ