امریکہ میں صدرC کے جیتنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ مباحث ہورہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا صدارتی دور عالمی معاملات پرکس طرح اثر انداز ہوسکتا ہے۔ یہ تجسس اور بے چینی قابل فہم ہے۔ تاہم ، اس کے لیے ٹرمپ کی شخصیت کو سمجھنے اور ان کے دعوؤں کی روشنی میں 2016سے 2020 کے درمیان ان کے پہلے دور صدارت کو جانچنا ضروری ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دنیا اب 2016 سے مختلف ہے ۔ یوکرین اور غزہ کی جنگوں نے عدم تحفظ کو فروغ دیا ہے اور عالمی امن کے بارے میں اندیشے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ یوکرین جنگ کی طوالت کی واحد وجہ یورپی ملکوں کا احساس عدم تحفظ ہے کہ اگر روس اپنی عددی و عسکری طاقت کے بل بوتے پر یوکرین پر حملہ کرکے اس کے چند علاقوں پر اپنا حق جتا سکتا ہے تو اسے دیگر یورپی ممالک کے خلاف ایسی ہی جنگ جوئی کی تیاری کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟ بیشتر یورپی دارالحکومتوں میں یہ احساس موجود ہے کہ یوکرین کی روس کے خلاف جنگ درحقیقت تمام یورپی ممالک کو مستقبل میں روسی توسیع پسندی سے بچانے کی لڑائی ہے۔ ظاہر ہے کوئی امریکی حکومت یورپ میں پائی جانے والی اس بے چینی کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتی۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ تمام تر وسائل اور توجہ امریکہ کی ترقی اور اپنے بقول امریکی عوام کو خوشحال اور عظیم بنانے پر صرف کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ غزہ میں شروع کی جانے والی اسرائیلی جنگ نے پورے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر عدم تحفظ کے گہرے احساس کو اجاگر کیا ہے۔ یہ جنگ حماس کے ایک عاقبت نااندیشانہ حملہ کی وجہ سے شروع ہوئی لیکن اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے جو جنگ شروع کی ہے، وہ اسرائیل کی سکیورٹی کے بنیادی اور جائز ضرورت سے بہت زیادہ اور شدید رد عمل ہے۔ امریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت کو اسرائیلی جنگ جوئی کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پورے سال کے دوران میں امریکہ ، اسرائیل پر جنگ بند کرنے اور غزہ میں انسانی امداد بحال کرنے کی کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے امریکی حکومت کے مطالبے کو نظر انداز کیا ہے اور جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں نیتن یاہو کو واشنگٹن میں ایک ایسا ہمدرد صدر دستیاب ہوجائے گا جو اس کی جنگ جوئی میں سہولت کاری کرسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ بائیڈن حکومت نے اسرائیلی جنگ جوئی کی مخالفت کرنے کے باوجود اس کی فوجی امداد میں اضافہ کیا اور اسے اسلحہ کی فراہمی بھی جاری رکھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امریکی معاشرہ میں اسرائیل کے وجود کی ضمانت دینے کے لیے شدید جذبات موجود ہیں۔ اس لیے واشنگٹن میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو اور وہائٹ ہاؤس میں کوئی بھی صدر براجمان ہو، اسرائیل کے لئے فوجی امداد اور اس کی حفاظت کے لیے مکمل سہولت کاری سے گریز کا امکان نہیں ہے۔ یہ صورت حال عوام کا سیاسی مزاج تبدیل ہونے اور اسرائیل نواز لابی کے مقابلے میں عرب آبادی و ممالک کی لابیوں کے مضبوط ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ البتہ یہ بھی واضح ہے کہ ایسا امکان پیدا ہونے تک تبدیل ہوتی عالمی سیاست میں شاید امریکہ کو وہ اہمیت و قدر و قیمت ہی حاصل نہ رہے جس کی وجہ سے وہ اس وقت کسی بھی خطے میں اور کسی بھی تنازعے میں فیصلہ کن اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس حوالے سے ٹرمپ کے پالیسی نعروں پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔ وہ عالمی ضرورتوں اور معاہدوں کو نظر انداز کرنے اور امریکی وسائل کو امریکی عوام کی سہولت کے لیے صرف کرنے کے حامی ہیں۔ یعنی وہ کسی عالمی ذمہ داری کی حمایت نہیں کرتے۔ جب وہ جنگ کے خلاف بات کرتے ہیں تو درحقیقت وہ یہ واضح کررہے ہوتے ہیں کہ اگر کسی کو جنگ کرنا ہے تو وہ اپنی طاقت اور وسائل پر تکیہ کرے کیوں کہ وہ امریکہ پر مالی بوجھ برداشت نہیں کریں گے۔ اگر امریکی حکومتیں تواتر سے یہ رویہ اختیار کریں گی اور ٹرمپ کی متعارف کرائی گئی پالیسیاں تسلسل سے جاری رہیں گی ، تو دنیا کے معاملات سے ’بیگانہ‘ ہوجانے والا امریکہ بھی دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے غیر متعلق ہوجائے گا۔ اس پالیسی نعرے کا فطری نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم محدود کرے، یورپ و مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں اسٹریٹیجک مفادات کے نام پر قائم کیے جانے والے فوجی اڈے، عسکری اتحاد اور معاہدوں کو ختم کیا جائے ۔
امریکہ توسیع پسندی ترک کرکے ہی ٹرمپ کے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے نعرے کو حقیقت بنا سکتا ہے۔ اور اعلان کرسکتا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کا بوجھ برداشت کرنے پر تیا رنہیں ہے۔ حالانکہ موجودہ امریکی پالیسی میں بھی امریکہ کسی دوسرے ملک یا خطے کا بوجھ برداشت نہیں کررہا بلکہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسی اور دنیا بھر میں خود کو ’سپر پاور‘ منوانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے اسے یہ قیمت ادا کر نا پڑتی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی جیسے علاقے کا کوئی چوہدری اپنی دھاک بٹھا نے کے لیے بڑا ڈیرا چلاتا ہے اور لنگر کا انتظام کرتا ہے جس سے تمام علاقے کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ چوہدری جانتا ہے کہ اگر اس نے یہ اہتمام نہ کیا تو پھر وہ ہر معاملے میں ٹانگ نہیں اڑا سکتا۔ اس لیے وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ فلاں فلاں تو میرے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ وہ یہ مصارف اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لیے برداشت کرتاہے۔ عالمی تناظر میں امریکہ کا بھی یہی کردار ہے۔ اگر وہ اس کردار کو تبدیل کرے گا تو دنیا کے تنازعات و معاملات میں اس کی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی۔ یہ کہنا یا سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ امریکہ اپنا یہ کردار تبدیل کرنے پر آمادہ ہے یا ٹرمپ قوم پرستی کے ایجنڈے کے تحت دنیا پر تسلط کا خواب ترک کریں گے۔
اس تناظر میں مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ اور علاقے کے دیگر ممالک کے عدم تحفظ کو سمجھنا بے حد اہم ہے۔ اب یہ عدم تحفظ صرف اسرائیل کے ہمسایہ ممالک ہی میں موجود نہیں ہے جو کسی نہ کسی وقت اس کی جارحیت کا براہ راست نشانہ بن چکے ہیں بلکہ یہ احساس سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں تک پھیل چکاہے۔ ایران تو پہلے سے ہی یہ واضح کرتا رہاہے کہ اسرائیل کی صورت میں امریکہ علاقے میں ایک ایسی قوت کی سرپرستی کرتا ہے جو اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرتی ہے۔ اور علاقے کے دیگر ملکوں کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔ غزہ میں ایک سال تک جارحیت کے بعد لبنان میں جنگ پھیلانے سے اسرائیل کی توسیع پسندی کے بارے میں اندیشوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ اب یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ اسرائیل صرف فلسطینی علاقوں پر ہی قابض نہیں رہنا چاہتا بلکہ وہ پورے علاقے میں اپنی دھاک بٹھا کر زور ذبردستی ’امن ‘ کا خواہاں ہے۔ یہ احساس عرب حکومتوں اور ایران کی ایک متضاد خیال حکومت کو قریب لانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔
ٹرمپ کا امریکہ ، یورپ اور چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کا اعلان کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یورپی مصنوعات پر دس سے بیس فیصد اور چینی مصنوعات پر ساٹھ فیصد تک محصول عائد کریں گے۔ معاشی ماہرین ایسے کسی بھی اقدام کے امریکی و عالمی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اور دیرپا منفی اثرات کا تواتر سے جائزہ پیش کررہے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کس حد تک اپنے اس وعدے کو پورا کریں گے لیکن اگر وہ یورپ و چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرتے ہیں تو امریکہ کسی روک ٹوک کے بغیر اپنی مصنوعات کی کھپت مشرق وسطیٰ میں ہی کرسکے گا۔ ایک دو دہائی قبل عرب ممالک اپنی اقتصادی طاقت کے بارے میں زیادہ آگاہ نہیں تھے۔ اسی لیے ’دوستی‘ کے نام پر مشرق وسطیٰ کی منڈیوں پر امریکہ کو اجارہ داری حاصل رہی ہے۔ البتہ حالیہ برسوں میں عرب ممالک نے اپنی معاشی قدر و قیمت کے نئے امکانات دریافت کیے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ اگر مشرق وسطیٰ میں اسلحہ سے لے کر دیگر مصنوعات و مہارت کی کھپت برقرار رکھنا چاہے گا تو ان ممالک میں اسرائیل کے بارے میں پیدا ہونے والے تحفظات دور کرنا پڑیں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ واضح ہونا چاہئے کہ اب عرب ممالک صرف کسی امریکی صدر کی خوشنودی کے لیے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و دوستانہ تعلقات پر راضی نہیں ہوں گے۔ اس کے عوض انہیں اپنی سالمیت اور علاقے میں امن کی ضمانت بھی دینا پڑے گی۔ دیکھنا ہوگا کہ عرب ممالک اپنا یہ اثر و رسوخ کیسے اسرائیل وامریکہ تعلقات کو متوازن کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ تو یہ رہا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد یوکرین کی جنگ بند کرا دیں گے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ یوکرین کی عسکری امداد کم کردیں یا نیٹو مصارف میں یورپی ممالک کو زیادہ حصہ دینے پر مجبور کریں۔ یوکرین جنگ بند کرانے کے لیے یا تو روسی فوجوں کو مکمل طور سے یوکرین چھوڑنا پڑے گا یا یوکرین کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ روس کی ہتک آمیز شرائط مان لے یعنی جن علاقوں پر روس نے قبضہ کیا ہے، اسے قبول کرلیا جائے اور یوکرینی حکومت یہ وعدہ کرے کہ وہ بیس سال تک نیٹو میں شمولیت کا خیال بھی دل میں نہیں لائے گی۔ فی الوقت دونوں ملک اپنی اپنی بیان کردہ پوزیشن سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ امریکہ ، روس کو یوکرین سے انخلا پر مجبور نہیں کرسکتا البتہ کسی طرح یوکرین کو رعایت دینے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یورپ کے عدم تحفظ، نیٹو کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی اور یورپی مصنوعات پر محصول عائد کرنے کے اعلانات کی صورت حال میں دیکھنا ہو گا کہ ٹرمپ کا امریکہ کس حد یورپی ممالک کو یوکرین کو تنہا کرنے کے لیے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
سابقہ دور میں ٹرمپ افغان جنگ بند کرانے اور ابراہام اکارڈ کے تحت بعض عرب ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے شمالی کوریا کے صدر کم جون ان کے ساتھ غیر روائیتی ملاقات کے ذریعے انہیں اسلحہ سازی کی دوڑ ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ٹرمپ شمالی کوریا کی پالیسی تو تبدیل نہیں کرا سکے۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ معاہدہ امریکہ کی مجبوری تھا اور باراک اوباما کی سابقہ حکومت اس بارے میں کافی کام کرچکی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک نئے ابراہم اکارڈ جیسی حکمت عملی کی راہ میں اب غزہ کی جنگ حائل ہوچکی ہے۔
ٹرمپ سابقہ دور میں بھی اپنے بیان کردہ اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے اور انہیں چین کے ساتھ مل جل کر چلنے کی پالیسی ہی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اب بھی وہ جن معاشی اقدامات کو ضروری سمجھتے ہیں، اقتصادی ماہرین کے نزدیک ان سے افراط زر میں اضافہ اور پیداوار میں کمی ہوگی۔ اس سے امریکی شہریوں کو سہولت کی بجائے مزید مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ کسی بھی صدر کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی صرف چار سال میں امریکہ کی پالیسیاں کا حلیہ تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ البتہ اگر وہ امریکی پالیسی سازی میں کوئی ایسی بنیاد رکھ سکیں جسےمستقبل کے صدور بھی مضبوط کریں، تب ہی ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔ ٹرمپ جیسے مقبولیت پسند لیڈر سے کسی طویل المدت حکمت عملی کی امید عبث ہوگی ۔ انہیں تو فوری نتیجہ دینے والا کوئی فیصلہ کرنے کا شوق ہے۔ اگر وہ اپنے بعض اعلانات نافذ کر بھی دیں تو ان کی مدت بہت مختصر ہوگی۔ ٹرمپ شاید دنیا پر دیرپا اثرات مرتب کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ