بہار رُت میں جب درختوں پر نئی کونپلیں نکلتی ہیں‘ پھول رنگ اور خوشبوئیں بکھیرتے ہیں توموسم دلکش اور سُہانا ہوتا ہے اور جب موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔ اس موقع پر صرف انسان ہی نہیں وسیب کی ہر شئے محو رقص نظر آتی ہے ۔ اس سہانی رُت میںمورخہ 6مارچ کو وسیب کے واسی ہر سال اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور پوری دنیا کو محبت اور امن کا پیغام بھیجتے ہیں ۔اجرک کا لفظ عربی لفظ ’’ازرق‘‘ سے نکلا ہے ۔جس کے معنی ہیں نیلا رنگ ۔سندھیوں نے بھی سندھی اجرک کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ جب عرب افواج علاقے میں داخل ہوئی تو مقامی باشندوں نے نیلی چادریں اوڑھی ہوئی تھیں اور وہ ان چادروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کی زبان سے بے ساختہ ازرق ، ازرق کے الفاظ ادا ہوئے ۔پھر ’’’ز‘‘ کا حرف ’’ج‘‘ میں تبدیل ہوا اور یہ اجرک کہلائی جانے لگی ۔ سرائیکی اجرک اس لئے بھی پھیلی ہے کہ زمین و آسمان کا بنیادی رنگ نیلا ہے اور یہ رنگ صوفیاء کا رنگ ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔ 21 فروری ماں بولی کا عالمی دن ہوتا ہے۔پچھلے دنوں لوک ورثہ اسلام آباد کی طرف سے ماں بولی کا قومی میلہ منعقد کیا گیا۔ یہ میلہ پاکستانی زبانوں کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا ۔ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی ، ہندکو، پوٹھوہاری، براہوی، مارواڑی، بلتی، پہاڑی، خوار، گوجری، شینا، اردو ، سب رنگ موجود تھے۔ پاکستانی زبانوں اور ثقافتوں کا یہ گلدستہ بہت خوبصورت اور بھلا نظر آیا کہ سب کے اپنے اپنے رنگ تھے ‘ اپنی اپنی خوشبوئیںتھیں ۔ میلے میں منعقد کی گئی ورکشاپس ، سیمینارز ، کانفرنسوں اور کلچرل شوز کے ذریعے ایک دوسرے کی زبانیں سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ سندھی سٹال پر وسیب کی اجرک بھی فروخت ہو رہی تھی اور یہ اجرکیں حیدر آباد سے بن کر آئی تھیں۔ میں نے رب کا شکر ادا کیا اور دوستوں سعید اختر سیال اور اکرم میرانی کو بتایا کہ یہ وہی صاحب ہیں کہ جب میں اجرک بنوانے حیدر آباد گیا تو انہوں نے اجرک بنانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اجرک کا سیمپل پھینک کر کہا کہ یہ نہیں چلے گی کہ یہ سندھی اجرک کے مقابلے کیلئے ہے۔ میں نے اُن سے کہا تھا کہ یہ مقابل نہیں متبادل ہے اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں یہ چلے گی نہیں ، میں کہتا ہوں کہ یہ رکے گی نہیں کہ یہ عظیم قوم کی پہچان ہے۔ لیکن اس صاحب کا غصہ کم نہ ہوا میں واپس آگیا لیکن آج ہمارے سندھی بھائی سرائیکی اجرک خود فروخت کر رہے ہیں، یہ عظیم کامیابی ہے۔ایک واقعہ یہ ہوا کہ سندھی اجرک کے سٹال پر ایک انگریزجوڑا آیا، دکاندار نے ان کو سندھی اجرک کے ڈیزائن دکھائے ، سعید اختر سیال ، غلام فرید صاحب اور میں نے وسیب کی نیلی اجرکیں پہنی ہوئی تھیں تو انگریز جوڑے نے دکاندار کو اجرک واپس کرتے ہوئے کہا "Its very beautifull”۔ پھر انہوں نے وسیب اجرک لی۔ایک لحاظ سے یہ ایک فیصلہ تھا کہ وسیب کی اجرک بہت خوبصورت ہے۔ سرائیکی میں کہا جاتا ہے کہ ’’لکھیا لوہا، اَلایا گٖوہا‘‘ یہ سرائیکی کہاوت پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہے ۔وسیب کے اُردو اخبارات ، رسائل اور سرائیکی اخبار جھوک کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات میں بھی سرائیکی اجرک کے بارے میں مضامین شائع ہو رہے ہیں ۔ اخبارات ہر سال اجرک ڈے پر خصوصی سپلیمنٹ بھی شائع کرتے ہیں ۔ اسی طرح پی ٹی وی ، ریڈیو اور پرائیویٹ چینلز پر بھی سرائیکی اجرک کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر تو حد ہو چکی ہے۔ وسیب کا جو بھی شخص سوشل میڈیا پر موجود ہے وہ نیلی اجرک کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ پروموٹ کر رہا ہے ۔ وسیب کے شعراء کرام نے اجرک کے بارے میں نظمیں اور گیت لکھے ہیں جن کو وسیب کے گلوکاروں نے خوبصورت دھنوں پر گایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف اجرک کا چرچا ہے اور سرائیکی اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ وسیب کی اجرک کے اجرا کا اعزاز بندہ ناچیز کوحاصل ہوا لیکن اسے فروغ دینے میں وسیب کے ادیب ، شاعر ، دانشور اور فنکار کسی سے پیچھے نہیں ۔نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طالبعلم تو اس اجرک کے دیوانے ہیں ۔ اسی طرح بہت سی سماجی تنظیموں نے بھی سرائیکی اجرک کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر شوکت مغل اور ملتان کے اخبارات نے بہت کام کیا ہے۔ شعراء کرام نے سینکڑوں کی تعداد میں نظمیں لکھیں اور گلوکاروں نے بہترین دھنوں کے ساتھ گایا۔ بہرحال کرافٹ بازار کے ملک عبدالرحمن نقاش کی خدمات بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ انہوں نے خصوصی طور پر اجرک کو ملتانی ڈیزائن میں ڈھالا اور اسے بہت دلپسند اور خوبصورت بنا دیا۔سرائیکی اجرک روز بروز مقبول ہو رہی ہے۔ جہاں میں نے خدمات کا تذکرہ کیا ہے تو حرفِ آخر کے طورپر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ 6 مارچ کچھ احباب اپنے ذاتی مقاصد کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور الگ الگ تقریبات منعقد کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ وقت اتحاد کا ہے اور سب کو ملکر آگے بڑھنا چاہئے کہ وسیب کو تقسیم کرنے والے پہلے ہی بہت زیادہ متحرک ہو چکے ہیں ۔ کبھی وہ بہاولپور صوبے کے نام پر وسیب کو تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی دوسرے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ان کو معلوم نہیں کہ وسیب کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے اور صوبے کے نام پر دھوکہ دیاجاتا ہے ‘ محرومی کے خاتمے کے نام پر ووٹ حاصل کئے گئے لیکن سب لوگ اپنے وعدے بھول گئے ۔ اور بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ والوں نے نیلی اجرکیں پہن کر صوبے کے نام پر ووٹ لئے ۔ آج وہ بھولے سے بھی صوبے کا نام نہیں لیتے اور ان کے قائدین اپنی زبان پر الگ صوبہ لانے سے کتراتے ہیں ۔ تو ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ وسیب کے کلچرل ڈے کو اتحاد کے طور پر منایاجائے ۔ ورنہ فوٹو سیشن تو اچھا ہو جائے گا مگر اصل مقاصد کی منزل بہت دور چلی جائے گی ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ