کل برادرم مظہر جاوید کی صحت یابی پرمبارک باد دینے کے لیے ارشد بخاری صاحب کے ہمراہ رائٹرز کالونی گیا تو بہت سے چہرے یاد آئے عمر علی خان بلوچ ،اور انور امروہوی سے ملنے ہم انہی گلیوں میں آتے تھے اور انہی گلیوں میں رات گئے پریس کلب کی انتخابی مہم کے دوران باقاعدہ مظہر جاوید صاحب کو اغوا کیا جاتا تھا ۔ غضنفر شاہی صاحب کی قیادت میں ہم سب دوست خوب سرگر م ہوتے تھے ۔ دو تین اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ گاڑیوں پر مشتمل ” الیکشن پِٹے “ جب قافلے کی صورت میں رات گئے کسی گلی میں رکتے تو ایک ہجوم کی صورت اختیار کر جاتے ۔ اسی قافلے میںجاوید درانی بھی ہوتے تھے ۔ جو ہم صاحب کے “ ڈاکٹر صاحب “ تھے ، معلوم نہیں انہیں کس نے ڈاکٹر صاحب کا نام دیا لیکن وہ ڈاکٹر صاحب ہی مشہور ہو گئے ۔ جاوید درانی ہماری انتخابی مہم کا حسن تھے ۔ شاہی صاحب کی گاڑی میں میرے علاوہ جاوید درانی ، ارشد قریشی ، اور علیم اختر سوار ہوتے تھے اور ہم خود کو پانچ پیارے بھی کہتے تھے ۔ فرنٹ سیٹ جاوید درانی صاحب کے لیے مختص تھی تاکہ وہ گفتگو کے دوران شاہی صاحب کو سڑک کی ناہمواریوں اور رکاوٹوں سے آگاہ کرتے رہیں اور کوئی گڑھا یا جمپ نظر آئے تو ” لیئو ، لیئو ، لیئو “ کا نعرہ مستانہ بلند کر کے ہمیں حادثے سے بچا لیں ۔ اس سارے عرصے کے دوران غیبت پروگرام بھی جاری رہتا اور کچھ لوگوں کے لیے کچھ نام بھی تجویز کیے جاتے ۔ یہ نام جاوید درانی ایسی برجستگی سے تجویز کرتے تھے کہ لطف آجاتا تھا ۔مثال کے طور پر منافق کو نیک آدمی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ا ور بھری محفل میں جب جاوید درانی کسی ایسی ہستی سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ جناب سارا زمانہ آپ کو ” نیک آدمی“ سمجھتا ہے تو ممدوح کو خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ اس کی ”کِٹ “ لگائی جا رہی ہے ۔ اسی طرح ”لوٹوں “ کا نام انہوں نے ڈائمنڈ رکھا ہوا تھا ۔ کسی صحافی لیڈر کو بہت اطمینان سے کہہ دیتے کہ جناب آپ کے گروپ میں تو ایک سے ایک ڈائمنڈ موجود ہے آپ کو بھلا کون ہرا سکتا ہے ۔
مجھے جاوید درانی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کی صلاحیتوں کا زمانہ معترف تھا ، نیوز روم کے اعصابی تناؤ والے ماحول کو ڈاکٹر صاحب اپنی شگفتہ بیانی سے خوشگوار بنائے رکھتے تھے ۔ الیکشن ہارنے کے بعد فلک شگاف قہقہ لگاتے اور جیتنے کی صورت میں کہتے بھائی معذرت چاہتا ہوں جیت گیا کوشش تو بہت کی تھی لیکن اب بھلا ووٹر کو کون سمجھائے ۔ ایسے ہی لوگ تھے جن کی موجودگی میں پریس کلب خوبصورت ہوتا تھا لیکن یہ سب لوگ ایک ایک کر کے صحافت کا رزق بن گئے ۔سات برس قبل 23 جنوری 2014ء کو جاوید درانی (ہم سب کے ڈاکٹر صاحب ) رخصت ہو گئے تھے ۔ آج ان کی برسی پر ان کی بہت سی باتیں یاد آ گئیں ۔ سات سال بیت گئے ہم نے اپنے ڈاکٹر صاحب کو ایک بار بھی تو یاد نہیں کیا تھا ۔ بس یہی زندگی کا چلن ہے یہی زود فراموشی ہے ۔۔
رضی الدین رضی
( بشکریہ : سب نیوز اسلام آباد )
فیس بک کمینٹ