برادرم امر شاہداور گگن شاہد نے جہلم میں ” بک کارنر “ کے نام سے کتابوں کی اشاعت کاجوسفر1973 ء میں شروع کیا تھا اسے پچاس برس سے زیادہ ہوچکے ہیں گویا
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
دونوں بھائیوں کے ساتھ ہماری ملاقات ملتان کی ایک تقریب میںچندبرس قبل ہوئی تھی ۔ بعد ازاںانہوں نے ہمیں جہلم آنے کی دعوت بھی دی لیکن ہم وعدے کے باوجود اب تک جہلم نہیں جا سکے ہاں البتہ فون پر ان کے ساتھ گاہے گاہے رابطہ رہتا ہے ۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے راجہ انور صاحب کا ذکر بھی ہو جائے جو گگن صاحب کے ساتھ رابطے کی ایک کڑی ہیںاور جن کی کتابوں کے حوالے سے میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور یہ کتابیں ہمیںآج گگن شاہد صاحب نے ہی ارسال کی ہیں۔
راجہ انور صاحب کے ساتھ ہمار اپہلا تعارف زمانہ طالب علمی میں ہوا ۔وہ کالج کازمانہ تھاجب ہم نے ان کی شہرہ آفاق کتاب ”جھوٹے روپ کے درشن “پڑھی تھی اورایک مرتبہ نہیں ہمارے عہد کے نوجوانوں نے وہ کتاب کئی مرتبہ پڑھی ۔ایسی مسحورکن نثر کہ جس کے سحر سے ہم آج تک نہیں نکل سکے لیکن اس زمانے میں ہمیں یہ معلوم نہیں تھاکہ راجہ انور کون ہیں ۔یہ عقدہ اس وقت کھلا جب ہم نے ان کی کتاب ”دہشت گرد شہزادہ “کامطالعہ کیا ۔پھرہمیں معلوم ہوا کہ راجہ صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ۔ وہ بائیں بازو کے ان بہت سے لوگوں میں سے ایک ہیں جوانقلاب کی خواہش لیے بھٹو صاحب کے گرد جمع ہوئے تھے ۔خواب چکنا چور ہوئے تویہ سب لوگ بھی بکھر گئے ۔۔
بعد کازمانہ الذوالفقار کی تشکیل ، پی آئی اے کی ہائی جیکنگ اورجلا وطنیوں کاہے ۔راجہ صاحب مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اوریہیں سے مشکلات اورابتلاءکاوہ دوربھی شروع ہواجوانہیں افغانستان کی بدنام زمانہ جیل پل چرخی تک لے گیا ۔راجہ صاحب کے ساتھ ہماری ملاقات 90کے عشرے میں ہوئی جب وہ پرویز رشیداور1980کے زمانے کے دیگرانقلابیوں کی طرح نواز شریف کے ساتھی بن چکے تھے ۔ملتان میں ان کی کتاب ”قبرکی آغوش “کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی توہم نے اور شاکر حسین شاکر نے اس میں مضمون بھی پڑھاتھا۔
گزشتہ برس ہم نے نامورمترجم اوردانشور مجاہد عشائی کی ترجمہ کی ہوئی عارف کمال کی کتاب ” کمال نامہ “ شائع کی توانہوں نے ہمیں اس کی تعارفی تقریب میں شرکت کے لیے آزاد کشمیرآنے کی دعوت دی ۔طے یہ ہوا کہ ہم تقریب سے پہلے ان کے دوست راجہ انور کے ساتھ ملاقات کریں گے ۔انہوں نے راجہ صاحب سے ہماری فون پر بات بھی کرائی لیکن ہم بوجوہ اسلام آباد نہ جاسکے اور یوں راجہ صاحب سے ملاقات بھی نہ ہوسکی ۔لیکن راجہ صاحب کے ساتھ ہمارا گاہے گاہے فون پررابطہ رہتا ہے ۔گزشتہ ہفتے بھی لندن سے ان کافون آیا کہ انہیں امر شاہد صاحب کا فون نمبر درکار ہے ۔گگن صاحب سے یہ نمبر لینے کے لیے فون کیا تو معلوم ہوا کہ اس دوران راجہ صاحب کی ان سے بات ہو چکی ہے ۔اب راجہ صاحب کے ساتھ ہماری ملاقات ان کی لندن سے اسی برس پاکستان آمد پر متوقع ہے لیکن اس وقت تک ہم ”جھوٹے روپ کے درشن “ والے راجہ انور کی سچی کہانیاں پڑھیں گے ۔
فیس بک کمینٹ