مجھے سجاد جہانیہ کا اسلوب اچھا لگتا ہے کہ وہ کبھی روزنامہ ایکسپریس کے انہی صفحات پر لکھا کرتا تھا۔ اس کا کالم آج بھی لوگ تلاش کر کے پڑھتے ہیں۔ کہ وہ کالم نہیں لکھتا کہانی لکھتا ہے اور کہانی لکھنے کے لیے پہلے وہ خود کردار بنتا ہے اور پھر اس میں کہانی ڈالتا ہے۔ اسے لوگوں سے مکالمہ کرنا اچھا لگتا ہے اور اس مکالمے سے وہ کہانی کشید کرتا ہے۔ اس نے ہمیشہ اردگرد کے لوگوں کو ان کے چہروں پر لکھی ہوئی کہانیوں سے پہچانا اور پھر اُن پر قلم اٹھا دیا۔ وہ کہتا ہے کہ ”بڑھتی ہوئی دوریوں اور پھیلتے خلاؤ ں میں خوشی کا کیا کام، فراق میں ہنسی کہاں سے آئی، کہانی کا انجام سے کیا لینا دینا، اور میری لکھی ہوئی ہر تحریر کہانی ہے جو ہر کہانی کی طرح ادھوری ہے، اَدھ کہی ہے، نامکمل ہے۔“ وہ کہانی لکھتے لکھتے اُسے اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے۔ اس کے نقوش بناتا ہے، اس میں رنگ بھرتا ہے۔ اس میں اپنی مرضی کی آواز اور پھر کہتا ہے ”مجھے کچھ سناؤ “۔ اس کی کہانیاں کہتی ہیں بیٹھو، میرے سامنے بیٹھو مَیں تمہیں بتاتی ہوں نہ بادشاہ کی کہانی سناتی ہوں نہ ملکہ کی نہ جن کی نہ ٹارزن کی مَیں تمہیں کہانیاں سناتی ہوں تمہارے گھر کی، تمہارے ابا جی کی، تمہاری ماں جی کی، پھر وہ کہانیاں سر پہ اٹھائے شہر میں آ جاتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہانی سن لو، کہانی، وہ لوگ جو کہانی سننا بھول چکے تھے وہ اُس کی آواز پر چونک جاتے ہیں۔ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اسے کہتے ہیں سناؤ کہانی۔ وہ کہتا ہے مَیں تمہیں ایک گلوکار کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ کہانی سننے والے کہتے ہیں ہم گلوکار سے کہانی نہیں گیت سننا چاہتے ہیں۔ وہ کہانی کی کتاب بند کر کے ایک تنور والی کے پاس آ جاتا ہے اور صدا لگاتا ہے جس کو بھوک لگی ہے وہ اس تنور پر آ جائے۔ خالص گندم کی خوشبو والی کہانی آ کر چکھ لے۔ لوگ کہتے ہیں ہم نے روٹی کھانی ہے خالص گندم کی خوشبو والی کہانی نہیں چکھنی۔ پھر وہ کہانیوں کا چھابہ اٹھائے استاد بلّے خاں طبلہ نواز کے پاس آتا ہے کہتا ہے کسی نے پائل کی چھنکار سننی ہے تو استاد کے ڈیرے پر آئے۔ جواب آتا ہے اگر پائل کی چھنکار کی کہانی سنانی تھی تو ہمیں یہاں کیوں بلایا یہ آواز تو ہم گھر بیٹھ کر بھی سن سکتے تھے، کسی ریڈیو کے ذریعے، کسی ٹی وی کے پروگرام میں۔ اٹھاؤ اپنی کہانی، وہ کہانی اٹھائے شیو کمار بٹالوی کی منڈیر پر آ جاتا ہے اور کہتا ہے جس نے ”مائے نی مائے میرے گیتاں دے ریناں وچ“ سننا ہے تو وہ میرے پاس آ جائے لیکن شاہ حسین کو سننے والے کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے دُکھ ماں کو نہیں کہہ سکے تو شیو کمار بٹالوی سے کیسے سنیں؟
سجاد جہانیہ اپنی کہانیاں اٹھا کر ایک مرتبہ پھر گھر آ جاتا ہے جہاں پر اس کی ماں کہتی ہے کہ تمہارا باپ مجھے ”بھاگاں“ کے نام سے پکارتا تھا تو تمہارے لفظوں میں بھی بھاگ لگے رہیں گے۔ تم پریشان نہ ہونا۔ سجاد خوش ہو جاتا ہے وہ کہتا ہے مجھے میری ماں نے تھپکی دی ہے اب میری کہانی سب سنیں گے۔ مَیں مکمل لوگوں کی ادھوری کہانیاں لکھوں گا جسے لوگ رات گئے بھی سنیں گے اور صبح سویرے بھی کہ مَیں نے یہ کہانیاں ایسے نہیں لکھیں۔ ان کہانیوں کے پیچھے کئی برسوں کی ریاضت ہے۔
یہ کہانیاں کبھی سجاد جہانیہ نے ماضی کے زمانوں میں جا کر سنیں اور اُن کو کاغذ پر منتقل کیا۔ تو کبھی اُس نے یہ کہانیاں اپنی تینوں بیٹیوں سے سنیں۔ وہ کہانیوں سے پیار کرتا ہے اپنی اولاد کی طرح۔ کہانیاں اُس کے گھر میں سایہ دار درخت کی طرح۔ کہانی اُس کی گاڑی میں منصور ملنگی کے اِک پُھل موتیے دا مصرعے کی طرح، وہ کہانی کو اپنے ساتھ لے کر صبح نکلتا ہے رات کو جب کہانی مکمل ہونے لگتی ہے تو کہتا ہے ابھی اس کو مکمل نہیں کرتا اسے ادھورا رہنے دو اور پھر اُن یادوں کو دستک دیتا ہے جن کو ماہ و سال کی تہیں لگی ہیں۔ کہانیوں میں انہیں پھرولتا ہے جہاں پر تشنگی ہو وہاں پر پانی رکھتا ہے۔ جہاں پر دھوپ ہو وہاں پر سایہ کرتا ہے۔ جہاں پر دُکھ ہو وہاں پر سُکھ کا منظر ڈالتا ہے۔ جہاں پر ایک رنگ ہو اُس کو رنگین کرتا ہے اور پھر آواز لگاتا ہے آؤ ، آ جاؤ ! مَیں سجاد جہانیہ، مَیں وہ داستانیں لکھ رہا ہوں جس کو سیلِ زمانہ بہا کر لے گیا۔ مَیں وہ کہانیاں لکھ رہا ہوں جو کبھی مکمل نہیں ہوں گی لیکن یہ ادھوری بھی نہیں ہیں کہ مَیں ملتان کی کہانیاں لکھ رہا ہوں جو پانچ ہزار سال سے کہانیوں کو اپنے دامن میں رکھے ہوئے ہے۔اس ملتان میں میری محبت بھی سانس لیتی ہے اور میں بھی اس کے ساتھ سانس لیتا ہوں اسی لئے جب میں محبت کی کوئی کہانی لکھتا ہوں تو وہ مجھے کہتی ہے کہ میری محبت مکمل کردو اور میں اسے کہتا ہوں کہ میں تمہاری محبت کو مکمل اس لئے نہیں کرسکتا کہ میں خود تمہارے بغیر ادھورا ہوں میں محبت کی کہانی کو اٹھا کر ملتان کی گلیوں کوچوں اور بازاروں میں آجاتا ہوں اور صدا لگاتا ہوں کوئی ہے جو اس محبت کی کہانی کو پڑھ لے اور پڑھ کر میرے محبوب کو بتا دے کہ یہ کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی اگر محبت کی کہانیاں پوری ہونے لگ جائیں تو محبت کی وادی میں نئے مسافر کہاں آئیں گے۔سو سجاد جہانیہ محبت کی بھی ادھوری کہانی لکھ کر یہ دعوت دے رہا ہے کہ آﺅ میری محبت میں اپنی محبت شامل کردو تاکہ ہم سب کی محبتیں اُن محبتوں کی طرح امر ہو جائیں جو ماضی میں کبھی شیریں فرہاد،ہیر رانجھا، سسی پنوں اور ان جیسے بہت سے محبت کرنے والوں نے کی تھی ۔سجاد جہانیہ میں تمہاری ان ادھوری کہانیوں کو محبت کی کہانیاں سمجھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ کہانیاں محبت کی طرح امر رہیں چاہے یہ ادھوری ہی سہی لیکن مکمل لوگوں کے بارے میں لکھی گئیں ہیں۔