بیدل حیدری نے کہا تھا:
میرے مرنے کی خبر جب ریڈیو پر آئے گی
ایک سناٹا فضا میں گونجتا رہ جائے گا
بیدل کے مرنے کی خبر ریڈیو پر آئی یا نہیں مگر ان کی موت نے ادبی فضا میں سناٹا ضرور طاری کر دیا اور یہ سناٹا ان کے جنازے پر کچھ زیادہ محسوس ہوا تھا۔ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کبیروالا کے گراﺅنڈ میں ایک جانب کرسیاں رکھی جا رہی تھیں اور سٹیج بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ وہاں رات کو ایک میوزیکل شو ہونے والا تھا اور کچھ ہی فاصلے پر بیدل حیدری کا جنازہ تھا کہ جس پر رونے والے بھی بہت کم تھے۔ ایک بیٹا تھا کہ جس کی آنکھوں میں کچھ آنسو تھے یا پھر دھاڑیں مارتے ہوئے خادم رزمی تھے جو بار بار ایک ہی جملہ کہتے تھے کہ ”اب میں کس سے لڑوں گا۔“ بیدل حیدری کا سات مارچ 2004ء کی شام پانچ بجے انتقال ہوا۔ جنازہ 8 مارچ کی دوپہر 3 بجے کے قریب پڑھا جا رہا تھا۔ اتنی تاخیر کے بعد گمان تھا کہ ان کے بہت سے شاگرد بھی جنازے میں ضرور پہنچیں گے مگر وہاں ایک آدھ کے سوا ان کا کوئی شاگرد موجود نہیں تھا، کبیروالا کے بھی چند ہی لوگ تھے، وہی کبیروالا جہاں انہوں نے زندگی کے کم و بیش 50 برس گزارے اور وہی کبیروالا کہ جس کی پہچان ہی بیدل حیدری تھے۔
7 مارچ کی شام صرف بیدل حیدری کی زندگی کا چراغ گل نہیں ہوا تھا ان کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب میں استاد شاگرد کا ”ادارہ“ بھی ختم ہو گیا تھا۔ شاعری میں استاد شاگرد کی روایت محاورةً ہی نہیں حقیقتاً بھی دم توڑ گئی تھی۔ ملتان میں یہ روایت حزیں صدیقی کے ساتھ رخصت ہوئی تھی، بہاولپور میں سید آل احمد کے بعد کوئی استاد شاعر باقی نہ رہا تھا۔ آخری چراغ کبیروالا میں بیدل حیدری نے روشن کر رکھا تھا، وہ بھی بجھ گیا۔ بیدل حیدری شاعر تو روایتی نہیں تھے مگر استاد بہرحال روایتی تھے باقاعدہ بازو پر رومال باندھ کر شاگرد بناتے تھے۔ ملتان سے لاہور تک اور دوسری جانب بہاولپور، رحیم یار خان اور صادق آباد تک ان کے بہت سے شاگرد تھے۔ بہت سوں کو انہوں نے لفظوں کی پہچان کرائی مصرعے کی بنت سکھائی اور فنِ عروض سے آشنا کرایا۔ بہت کم ایسے تھے کہ جنہوں نے انہیں اپنا استاد تسلیم بھی کیا ورنہ عموماً ہوا یہی کہ پرندوں نے جب اُڑنا سیکھ لیا تو استاد کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا کہ اُڑنے کے بعد نئے جہان سامنے نظر آنے لگے۔ بعضوں کو شہرت بھی میسر آ گئی اور اسے انہوں نے اپنے فن کا کمال سمجھ لیا۔ شاگردوں نے اپنے خوبصورت شعری مجموعے بھی شائع کرائے۔ کچھ شعری مجموعوں میں استاد کی عطا کی ہوئی غزلیں بھی شامل ہوئیں مگر استاد کو اپنی شاعری منظر عام پر لانے کے لئے خود ہی تگ و دو کرنا پڑی، بیدل حیدری کو اس تمام صورتحال کا ملال بھی تھا اور وہ اسے زمانے کا چلن کہتے تھے۔
وہ روایتی استاد تھے اس لئے ان کا انداز بھی تحکمانہ ہوتا تھا، خط جسے بھی لکھتے وہ خط کم اور ”آرڈر آف دی ڈے“ زیادہ ہوتا تھا، کس مشاعرے میں جانا ہے اور کس میں نہیں جانا، کون آیا تھا اور کیا کہہ رہا تھا،کس نے کتنی غزلیں ”مرمت“ کرائیں اور کس نے ان کے عوض کتنے پیسے بھیجے، کون ناخلف ہے اور کون فرمانبردار، کس رسالے کو غزلیں بھیجنی ہیں اور کس کا بائیکاٹ کرنا ہے، فلاں مشاعرے سے اگر اتنے پیسے اور آنے جانے کےلئے گاڑی ملے تو وہاں ضرور جانا چاہئے، بصورت دیگر ہمیں غزلیں سنانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ یہ سب ہدایات وواقعات شاگردوں کے نام ان کے خطوط میں عموماً ملتے تھے۔ ایک خط میں اگر ایک شاگرد کو ناخلف کہتے تو دوسرے خط میں یہ بھی لکھا ہوتا کہ ہم نے اسے معاف کر دیا ہے۔ بس ان کا ایک اپنا ہی نظام تھا جو قائم بھی انہوں نے خود کیا اور جسے چلا بھی وہ خود رہے تھے، کتنے ہی شاعروں کی ”شاعری“ کی حقیقت صرف انہی کو معلوم تھی۔ ایک شاعر کے بارے میں اعلان کیا کہ اس کی کتاب میں 40 غزلیں میری ہیں۔ دوسرے کے بارے میں کہا کہ اس کی کتاب میں 25 غزلیں میری ہیں (اور ایسا ہوتا بھی تھا) لوگوں نے اعتراض کیا کہ بیدل صاحب آپ نے انہیں غزلیں کیوں دی تھیں اور اگر دے ہی دی تھیں تو اب اس کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ ”بھئی غزلیں نہ دیتا تو میرے گھر کا کچن کیسے چلتا؟“ یہ ان کا مختصر سا جواب ہوتا تھا اور بات بھی درست تھی ان کے پاس ایک ہی تو ہنر تھا۔کہتے ہیں شاعری پیٹ نہیں بھرتی، گھر چلانے کے لئے اور پیٹ بھرنے کے لئے شاعری کے ساتھ کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے، مگر بیدل حیدری بس شاعری ہی کرتے تھے اور اسی سے گھر چلانے کی کوشش بھی کرتے۔ ایک چھوٹا سا مطب بھی تھا ان کا مگر وہاں صرف مریضان ادب کا ہجوم رہتا تھا۔جس مطب پر صبح سے شام تک مشاعرے ہوں وہاں کوئی مریض بھلا کیسے آتا۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی اور گھر میں بھوک افلاس کا بسیرا تھا۔ وہ روشن دنوں کے خواب دیکھتے تھے۔ سماج کو بدلنا چاہتے تھے ایک ترقی پسند اور روشن خیال شاعر تھے۔ ایک توانا آواز تھی کہ جس نے کبیروالا جیسے چھوٹے سے قصبے میں بیٹھ کر برصغیر میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا، پوری نسل کو متاثر کیا۔ بہت سے نوجوانوں نے ان کا شعری اسلوب ہی نہیں مشاعرے میں غزل پڑھنے کا انداز بھی اپنا لیا، ان کی موت سے اردو غزل کے ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ اگرچہ ان کی کے شعری مجموعے ان کی زندگی میں بھی شائع ہوئے لیکن خوشی کے بات ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگرد شکیل سروش نے بہت محبت کے ساتھ ان کی کلیات شائع کی جبکہ سرگودھا یونیورسٹی میں ڈاکٹر عامر سہیل ان کے حوالے سے تحقیقی کام کروا رہے ہیں۔بیدل صاحب کی برسی کے موقع ان کے اشعار یاد آگئے:
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل لباسِ زیست بہت دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ